سوال (3161)
ایک شخص کے کچھ جمعے رہ گئے ہیں، اب وہ ان کی قضاء دینا چاہتا ہے تو وہ قضاء کیسے دے کیا طریقہ ہونا چاہیے، دوسرا وہ کہتا ہے کہ میرا ارادہ ہے کہ جمعے مختلف مساجد میں جاکر ادا کروں، مثلاً ایک جگہ ایک بجے ہے، اس امام کے پیچھے پڑھ کر، دوسری جگہ اڑھائی بجے ہے، وہاں پہنچ کر اس کے پیچھے پڑھوں اسی طرح اور مسجد میں، یعنی ایک دن میں دو تین جمعے پڑھوں آیا کہ یہ ٹھیک ہے، تیسرا یہ بتائیں قضاء دیتے وقت ظہر مکمل پڑھے گا یا دو دو رکعتیں پڑھے گا۔
جواب
اس کو اتنا تردد کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جو جمعہ رہ گیا اس دن ظہر کی نماز ادا کرے، سنتیں اور نوافل چھوڑ دے تو بھی حرج نہیں ہے، جمعے کی قضاء جمعے کی صورت میں نہیں ہے، بلکہ نماز ظہر کی صورت میں ہے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
جس شخص کا جمعہ رہ جائے وہ ظہر نماز ادا کرتا ہے، اب یہ ہے کہ اگر جان بوجھ کر جمعہ چھوڑا ہے تو جان بوجھ کرنماز چھوڑنے کی وعید ہے، پھر اس کو چاہیے کہ سچے دل سے توبہ و استغفار کرلے، یہ اس کو کفایت کرجائے گا، اگر جمعہ کی قضاء ادا کرنی ہی ہے تو پھر ظہر ہی ادا کرلے، ان شاءاللہ کفایت کر جائے گی۔ باقی اس کے ساتھ توبہ و استغفار کرلے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اگر ان صاحب کے کچھ جمعے عمداً و ارادتاً رہ گئے ہیں تو سب سے پہلے یہ جان لیں کہ عمدا جمعہ ترک کرنا سخت گناہ ہے، اب یہ خالص توبہ کریں اور یہ توبہ کرنا ہی کافی ہو گا إن شاءالله الرحمن اور اگر بامر مجبوری رہ گئے ہیں تو اب یہ ان کی جگہ ظہر کی نماز ادا کرے گا تکلف میں پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، پھر یاد رہے ایک وقت میں ایک فرض عمل کو دو یا زیادہ بار ادا کرنے سے وہ دوسرا تیسرا ادا کیا گیا عمل فرض نہیں کہلائے گا بلکہ نفل کہلائے گا جیسے فرض نماز پڑھ چکنے والا بعد میں آنے والے پر صدقہ کرتا ہے کہ اس کے ساتھ پھر سے نماز پڑھ لیتا ہے تو اب یہ دوسری بار پڑھیں گئ نماز نفل قرار پائے گی تو اب وہ ایسا نہیں کریں بلکہ ہماری رہنمائی کے مطابق عمل کریں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ