سوال (5791)

اگر کوئی شخص کسی جگہ جاب کرتا ہے اور جو کام اس کو سونپا گیا ہے، جس کی اسے سیلری ملتی ہے، وہ کام نہ کرے یا ادھر ادھر اپنا ٹائم پورا کرے، تو کیا اس کی کمائی حرام ہوگی؟ اہل علم قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

اس کی کمائی کو حرام تو نہیں کہہ سکتے، باقی یہ ہے کہ ذمے داری پوری نہ کرنے کی وجہ سے اس کا کام مشتبہ ہوگیا ہے، اس کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے، یہ اس طرح ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کاروباری حضرات کے بارے میں فرمایا ہے کہ اونچ نیچ ہونے کی وجہ سے صدقہ کرلیا کرو، اس کو صدقات اور استغفار سے دور کیا جا سکتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: اور اگر عالم ہی ایسے ہوں کے ان کی ڈیوٹی لگی ہو نمازیں پڑھانے کی اور وہ اس وقت ٹیوشن وغیرہ پڑھانے چلے جائیں تو پھر؟
جواب: مستقل بنیادوں پر ایسی حرکات کی اجازت نہیں ہے، ایسے معاملات پر انتظامیہ سے اجازت لینی چاہیے، انتطامیہ سے اس حوالے سے بات کرکے علم میں لائے کہ مجھے فلاں نماز میں دقت ہوتی ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل نے سوال جڑ دیا ہے، ایسے حضرات سے یہ پوچھنا چاہیے کہ وہ آدمی دنیا کا مقدس ترین فریضہ سر انجام دے رہے ہیں، تو کیا آپ لوگ اس کو ماہانہ اتنا وظیفہ دیتے ہیں، کہ اس سے اس کی دال روٹی چل سکے، بیس ہزار یا پچیس ہزار کی چھلانگ لگا کر کبھی پانچ ہزار دیے ہیں، کبھی دس ہزار دیے ہیں، عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ مسجد کمیٹی کے حضرات کی طرف سے کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں، حالانکہ تقریبات میں دس دس لاکھ خرچ کرتے ہیں، ماہانہ وظیفہ بھی صحیح نہیں دیا جائے، اوپر سے ٹیوشن بھی نہ پڑھانے دیا جائے، یہ تو زیادتی ہے، آج کل ہمارے رویوں کی وجہ سے علماء کرام اس فیلڈ سے دور ہوتے جا رہے ہیں، جتنی نظریں لوگوں کی جوان بچوں پر نہیں ہیں، اتنی نظریں علماء کرام پر ہیں، لہذا اعتراض کے بجائے، ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

جی بالکل یہی حالات ہیں، ہمارے کراچی میں کسی شیخ الحدیث کو سینتیس سال کے بعد منبر سے ہٹا دیا گیا ہے، بڑے مکر و فریب سے کام لیا جا رہا ہے، منبر و محراب پر جہمیہ، معتزلہ اور جبریہ، خوارج معلوم نہیں ہے کہ کونسے کونسے آئے ہیں، اہل علم حالانکہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں، اس کے باوجود لوگوں سے برداشت نہیں ہو رہے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: لیکن محترم بات اس طرح نہیں ہے کہ وہ اکیڈمی نہ پڑھائیں جتنی مرضی پڑھائیں، لیکن جو ڈیوٹی انکو دی گئی ہے کم از کم اسے ادا کرنا تو فرض بنتا ہے۔ ایک دن ہم وہاں نماز پڑھنے گئے عصر کا وقت تھا۔اذان بھی نہیں ہوئی تھی ۴ بجے جماعت تھی ہم ۴ بج کر ۵ منٹ پر وہاں پہنچے کوئی بندہ نہیں تھا۔ ہم نے اسی ڈر سے اذان نہیں دی شاید ہو گئی ہو ہم نے ایسے ہی نماز پڑھ لی، بعد میں نمازی آئے تو ان سے پوچھا کہتے امام صاحب ظہر کے لیےبھی نہیں آتے عصر کے وقت بھی کبھی کبھی اور مغرب و عشاء بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔
ہاں اگر نہیں پڑھا سکتے تو کم از کم کسی کی ذمہ داری تو لگا سکتے ہیں کہ میں ان اوقات میں نہیں ہوتا کوئی اور بندہ اذان دے دے نماز پڑھا دے، اس حوالہ سے پوچھا تھا؟
جواب: اصل ذمے داری مسجد کی ہے، اس کو احسن طریقے سے نبھائیں، باقی اس کے ساتھ اکیڈمی پڑھا رہے ہیں، تو اچھی بات ہے، آپ کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

خلاصہ بحث یہ ہے کہ جو سلوک آج علماء سے کیا جاتا ہے، وہ ایک ایک چیز کے لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے، نتیجہ یہ نکلے گا کہ نسل در نسل علماء پیدا نہیں ہونگے، کیونکہ لوگ جو علماء کے ساتھ سلوک کرتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو اس طرح نہیں بنانا چاہتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ