سوال (5831)

ایک شخص جوئے کا کوئی کام کرتا تھا، پھر اس نے توبہ کر لی اور توبہ کے بعد جوئے کی کوئی پچھلی رقم اسے ملی، اب اس کے گھر میں اس کے بھائی کی شادی کا پروگرام تھا تو اس نے ایک مفتی سے فتوٰی لیا تو مفتی صاحب نے کہا کہ چونکہ تمہارے حالات بھی اچھے نہیں ھیں اور تمہارے بھائی کو شادی کیلئے پیسوں کی بھی ضرورت ھے تو اس لیئے تم وہ جوئے کی رقم اپنے بھائی کو دے دو اور آئندہ جوا مت کھیلنا، تو کیا اس کا توبہ کرنے کے بعد اس جوئے کی رقم کو پانے بھائی کو شادی کیلئے دینا جائز تھا؟

جواب

ہمارے نزدیک اس کا اپنے بھائی کو یہ رقم دینا جائز نہیں تھا، کسی اور سے کہہ کر جائز پیسے سے مدد کروا دیتا وہ بہتر تھا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کو کسی نے کہانت کی اجرت سے کچھ کھلا دیا تو انہوں نے قیء کردیا تھا، توبہ کرلی ہے، لیکن وہ رقم اپنے بھائی کو نہیں دینی تھی، وہ کسی غیر مسلم جو جنگجو نہ ہو، اس کو دیتا، رفاہ عامہ میں دیتا یا کسی سودی قرضے والے کو دیتا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: جی شیخ محترم ایسا ھی بتایا ہے اور دوسرا یہ کہ جوئے کے مال سے بنائی گئی جائداد، مکان اور گاڑی، سامان، فون کپڑے جوتے وغیرہ کا کیا حکم ہوگا؟ جب جوا کھیلتا تھا تو جوئے کی رقم سے یہ چیزیں بنائی تھیں اور اب توبہ کر لی ھے تو اب ان چیزوں کا کیا کرے؟
جواب: سود وغیرہ کے پیسے کو جلانا یہ مال کے ضیاع میں آ جائے گا، توبہ کرلی ہے تو ٹھیک ہے، اگر دوسرا مال نہ ہو تو اس مال کو راس المال بنا سکتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ