سوال (861)

کیا جمعہ کے دن زوال کے وقت نو افل ادا کیے جا سکتے ہیں ؟

جواب

ویسے جمعۃ المبارک کے دن زوال تو ہوتا ہے ، مگر اس کا اعتبار نہیں گیا ہے ، تو عموم پہ رکھتے ہوئے سب کو اجازت دی جا سکتی ہے ، کیونکہ نماز تو نماز ہے ، اگر منع ہے تو سب جگہ منع ہے ، عموم میں سب کو شامل کردیا جائے تو اس میں آسانی ہے ، البتہ اولی ہوگا کہ اذان زوال کے فوراً بعد دی جائے ، جمعے کے دن زوال ہوتا ہے مگر اعتبار نہیں ہوتا ہے ، جیسے بیت اللہ میں بارہ مہینے اور چوبیس گھنٹے اعتبار نہیں ہوتا ہے ، اسی طرح دیگر مساجد میں صرف جمعے کے دن اعتبار نہیں ہوگا ۔
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَا يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَيَتَطَهَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ وَيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَخْرُجُ فَلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُصَلِّي مَا كُتِبَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَكَلَّمَ الْإِمَامُ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى.

جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعمال کرے پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر جتنی ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ (صحيح البخاري : 883)
اس حدیث سے یہ مسئلہ واضح ہوتا ہے کہ نوافل پڑھے جا سکتے ہیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جتنی ہوسکے نفل نماز پڑھ لے ، ہمارے بعض اسلاف سے 34 رکعات تک ثابت ہے ، اس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ وہ نوافل پڑھتے رہتے تھے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

جی نوافل پڑھے جا سکتے ہیں ، بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن زوال کا اعتبار نہیں ہوتا ہے ۔

فضیلۃ الباحث امتیاز احمد حفظہ اللہ

جمعہ کے دن انتصاف النہار کے وقت نماز پڑھنا۔
اولا یاد رہے کہ اس وقت نماز پڑھنا مسلم کی حدیث میں ممنوع قرار دیا گیا ہے ، ابن المنذر رحمہ اللہ الاوسط میں فرماتے ہیں کہ علماء کا اس میں اختلاف ہے جو منع قرار دیتے ہیں وہ اسی عموم سے دلیل لیتے ہیں۔ کیونکہ یہ نفی عام ہے جمعہ ہو یا غیر جمعہ ہر دو شامل ہے۔
فرماتے ہیں کہ اس عموم سے خروج کے لئے سنت سے دلیل چاہیے۔
“جمعہ کی تخصیص جن احادیث میں وارد ہے وہ سندا صحیح نہیں”
جو علماء جواز کے قائل ہیں انکی قوی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے۔

لاَ يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الجُمُعَةِ، وَيَتَطَهَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ، وَيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ، أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَلاَ يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ، ثُمَّ يُصَلِّي مَا كُتِبَ لَهُ، ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَكَلَّمَ الإِمَامُ، إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجُمُعَةِ الأُخْرَى(بخاری)

دوسرے طریق میں ثم یخرج کی جگہ ثم راح کے الفاظ ہیں. دیکھئے صحیح البخاری۔
معرفة السنن والآثار میں امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے جمعہ کے دن جلدی آنے اور امام کی آمد سے پہلے تلک بلا استثناء نماز پڑھنے کی ترغیب دلائی ہے۔
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
نبی علیہ السلام نے نماز کی ترغیب دلائی ہے اور اسے اس وقت منع قرار دیا جب امام خطبہ کے لئے تشریف لے ائے۔
اسی لئے کئی سلف سے ثابت ہے جن میں عمر بن الخطاب ہیں اور انکی اتباع امام احمد نے کی جو کہتے ہیں
خروج الإمام يمنع الصلاة، وخطبته تمنع الكلام، فجعلوا المانع من الصلاة خروج الإمام لا انتصاف النهار.
امام کا نکلنا نماز کے لئے مانع ہے۔
اور اس کا خطبہ کلام کے لئے۔
لہذا انھوں نے مانع انتصاف النہار کو نہیں بلکہ خروج امام کو بنایا ہے۔
دوسرا لوگ مسجدوں کی چھتوں تلے ہوتے ہیں انہیں زوال کی کیا خبر۔
احیانا آدمی نماز میں مشغول ہوتا ہے کو نپٹ وقت زوال کو نہیں جانتا
اور ایسا بھی شریعت نے مشروع نہیں قرار دیا کہ وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر جائے اور دیکھے آیا زوال کا وقت ہوا یا نہیں (زاد المعاد)
راجح یہی ہے کہ یہ حدیث جمعہ کے دن ممنوع وقت کی تخصیص کرتی ہے۔ آدمی کے لئے مشروع ہے کہ وہ امام کے خطبہ کے لئے آنے تلک نماز ادا کرتا رہے۔
آخر میں ابن رجب کا کلام فتح الباری سے پیش خدمت ہے
امام بخاری نے باب قائم کیا “الصلاة بعد الجمعہ و قبلہا” جس طرح عبدالرزاق الصنعانی اور امام ترمذی رحمہم اللہ نے باندھا مگر آخر ذکر دونوں محدثین نے اس باب میں فقط موقوف احادیث کا ذکر کیا۔
امام بخاری نے اس حوالے کچھ ذکر نہیں کیا۔
(1) مرفوع ان کے معیار کی نہیں تھیں کیونکہ وارد احادیث کی صحت میں کلام ہے
(2) اس باب میں فقط موقوفات ہیں ولذا کچھ ذکر نہیں کیا
(2) حدیث سلمان فارسی پر اعتماد کیا اسکی جانب اشارہ کیا جو پہلے دو دفعہ گزر چکی(یہ مذکورہ بالا حدیث ہے)
اس میں الفاظ ہیں وصلى ما كتب له، ثم أنصت إذا تكلم الإمام
اس میں خطبہ سے نماز کی فضیلت کا بیان ہے۔
خصوصا ایک طریق میں راح کے الفاظ ہیں جبکہ یہاں رواح حقیقی مراد ہو اور یہ زوال شمس کے بعد ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ جمعہ کے دن انتصاف النہار کے وقت نماز پڑھنے کی فضیلت ہے اور اس کی کوئی تعداد مقرر نہیں کم از کم دو رکعات۔
اور اگر اس (یعنی راح ) سے ذھاب یعنی جانا مراد ہو تو بھی یہ دلیل ہے کہ مشروع ہے آدمی کے لیے نماز پڑھنا امام کے خطبہ کے لئے نکلنے تلک ، زوال الشمس سے پہلے یا بعد کے مابین تفصیل و ترجیح کے بغیر۔۔
(جواز پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اثر موطا میں دیکھیے) واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ