سوال (569)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عمل سیکھایا اور کروایا ہو اور دوسری طرف اگرچہ وقت کے تقاضے کو لیتے ہوئے کسی خلفاء راشدین میں سے کسی ایک کا عمل ہو ، جیسے جمعہ کی اذان دونوں الگ الگ ہوں تو ایسی صورت میں کسے اختیار کرنا چاھیے؟

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات آجانے کے بعد کسی کی حاجت نہیں رہتی ہے ، البتہ فہم سلف تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس کو دیکھیں ، خود ساختہ کوئی معنی اور مفہوم نہ لیا جائے ، ایک تو یہ قاعدہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہیے ، اس کو عام کرنا چاہیے ، دوسرا یہ ہے کہ خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ضرورت کے تحت کسی چیز کو اپنایا ہے یا حکم جاری کیا ہے تو اس کو لیا جا سکتا ہے ، بشرطیکہ وہ صراحتاً مخالفت کے زمرے میں نہ آتا ہو ، اگر اس کو کوئی نہ بھی لے تو ٹھیک ہے ، اس پر فتویٰ نہیں لگانا چاہیے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، ‏‏‏‏‏‏وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، ‏‏‏‏‏‏عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ”
[سنن ابن ماجه : 42]

«تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا»
اس لیے جمعے کے دن اذان ثانی پر فتویٰ نہیں لگانا چاہیے ، البتہ یہ مطالبہ کرنا حق بجانب ہے کہ ضرورت کے تحت کیا گیا تھا ، اگر آج بھی ضرورت ہے تو کر سکتے ہیں ،سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شراب کی حد کے اسی کوڑے کردیے تھے ، اگر آج بھی ضرورت ہے تو کردیا جائے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ