سوال (2680)

کیا جب کوئی کافر فوت ہو جائے تو اس پر “انا للّٰہ وانا الیہ راجعون” کہنا صحیح ہے؟

جواب

اہل علم کی مختلف آراء ہیں، خلاصہ بحث یہ ہے کہ اگر ان تعزیتی کلمات میں مصلحت ہے، بالخصوص اس سے دعوت دین کا دروازہ کھلتا ہے یا اس کے بغیر دین کے حق میں کوئی مصلحت ہو تو یہ تعزیتی کلمات کہے جا سکتے ہیں، باقی یاد رکھیے کہ دعائے مغفرت نہیں کرنی چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سورہ بقرہ کی آیت کے مطابق تو مصیبت کے وقت استرجاع کرنے والوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اور کافر کی موت مصیبت نہیں ہے۔ بلکہ حدیث کے مطابق کافر کی موت پر اس کو جہنم کی خوشخبری دینی ہے۔

“عن ابن عمر قال النبي صلى الله عليه وسلم: ” حيثما مررتَ بقبر كافرٍ فبشره بالنار.”

جب بھی تو کسی کافر کی قبر کے پاس سے گزرے تو اسے جہنم کی اگ کی خوشخبری دے”
رواه ابن ماجه ( 1573 ). والحديث: صححه البوصيري في ” الزوائد ” ، والشيخ الألباني في ” السلسلة الصحيحة “
اسی طرح آثار سلف بھی ملتے ہیں کہ کفار کی موت پر ہمارے سلف کا خوش ہونا اور سجدہ شکر بجا لانا وغیرہ جیسا کہ مخدج خارجی کی موت پر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا شکر ادا کرنا۔
لہذا کسی کافر کے مرنے پر استرجاع کرنا درست معلوم نہیں ہو رہا الا یہ کہ کافر کی موت پر انا للہ وانا الیہ راجعون کہنے کے حوالے سے سلف کے صحیح اثار مل جائیں۔
واللہ اعلم۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

جی یوں کہنا بالکل درست نہیں ہے ، قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کے ماقبل وما بعد پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ کلمات خالص اہل ایمان کے ساتھ خاص ہیں۔
ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ و سلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’کوئی مسلمان جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ وہی کلمہ کہے جس کا الله تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے (یعنی یہ دعا پڑھے) :

(( إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا))

(یقیناً ہم الله تعالی ہی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، اے الله ! مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرمائیں اور مجھے اس کی جگہ اس سے بہتر عطا فرمائیں) تو الله تعالی اسے اس سے بہتر عطا فرماتے ہیں۔ ‘‘سیدہ ام سلمہ رضی الله عنہافرماتی ہیں کہ پھر جب (میرے خاوند) ابو سلمہ رضی الله عنہ فوت ہوئے تو میں نے کہا مسلمانوں میں ابو سلمہ رضی الله عنہ سے بہتر کون ہو گا؟ پہلا گھرانہ جس نے رسول الله صلی الله علیہ و سلم کی طرف ہجرت کی۔ پھر میں نے یہ (مذکورہ بالا) کلمہ کہہ لیا تو الله تعالیٰ نے ان کی جگہ مجھے رسول الله صلی الله علیہ و سلم عطا فرما دیے۔ [مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ : 918]
آپ اس فرمان رسول اکرم صلی الله علیہ پر غور کریں !

مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ فَيَقُولُ مَا أَمَرَهُ اللَّهُ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ [صحیح مسلم : 918]

اور دیکھیں کہ واضح یہ تعلیم مسلمانوں کے لیے ہے، ہمیں کتاب وسنت اور تعامل رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم، تعامل صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے ہرگز یہ چیز نہیں ملتی ہے کہ کفار کے فوت ہونے پر ایسے کلمات کہنے کی تعلیم دی گئی ہو اور خود بھی اس پر عمل کیا ہو، اس کے ساتھ قرآن کریم کے سیاق وسباق پر غور کریں تو اہل ایمان کو جب کوئی مصیبت پنہچتی ہے اور وہ کمال صبر کے ساتھ انا لله وانا اليه راجعون کہتے تو اگلی آیت میں ان کی رب العالمین یوں صفات بیان کیں

“أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ”

یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں
[البقرہ : 157]
اس لیے کسی بھی کافر کے فوت ہونے پر اس طرح کے کلمات بالکل نہیں کہنے چاہیے ہیں نہ ہی ان کی تعزیت کرنی چاہیے ہے کیونکہ تعزیت بھی حق مسلم ہے، سلف صالحین تو کسی گمراہ کے مرنے پر خوش ہوتے اور سجدہ شکر بجا لاتے تھے زمین کے جانور تک ان کی موت پر اپنے جزبات کا اظہار کرتے ہیں، ایک اور طرح سے غور کریں کہ قرآن وحدیث میں کفار کی موت کے وقت کیا سزائیں انہیں سنائی جاتی ہیں اور ان کی ارواح خبیثہ کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

کافر کی موت، نقصان پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا ٹھیک ہے، اس لیے کہ یہ تو اپنے عقیدے کا اظہار ہے، مرنے والے کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ اس کے ترجمہ پر غور کریں۔
بیشک ہم اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

فضیلۃ الباحث عطوف الرحمٰن حفظہ اللہ