سوال (2958)

گذشتہ سال ایک شخص جس کا نام اللہ دتہ چوہدری ہے ، جو کہ غیر ممالک میں ملازمت کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے ایک غیر مسلم عورت سے شادی کی جس کے بطن سے ایک لڑکا جس کا نام عمر رکھا گیا پیدا ہوا۔ پہلی بیوی کو طلاق کے بعد دوسری غیر مسلم عورت سے شادی کی اس کے بطن سے ایک لڑکی ہوئی اور اس عورت کو بھی طلاق دی گئی۔ بعد ازاں اللہ دتہ نے تیسری شادی کی جو کہ اب تک مسلمان ہے، اس کے بطن سے اولاد نہ ہے۔ مرحوم اللہ دتہ لاہور میں ایک مکان کا مالک تھا۔ اور قصور ضلع میں بھی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کا مالک تھا۔ گذشتہ سال ماہ جنوری 2023 میں اس کا امریکا میں انتقال ہو گیا۔ اور اپنی وصیت کے مطابق لاہور پاکستان میں دفن ہوا۔ مرحوم کے انتقال کے وقت اس کا ایک بڑا بھائی محمد رمضان زندہ تھا جو کہ بعد میں 2024 میں آسٹریلیا میں وفات پا گیا۔ اس کی ایک بیوہ، تین بیٹے اور تین بیٹیاں بیرون ملک آباد ہیں مرحوم اللہ دتہ کے انتقال کے بعد مرحوم کی بیوہ آمنہ جو کہ مسلمان ہے اور لڑکا لڑکی نے حصول وراثت کے لیے سول عدالت لاہور میں دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔ اللہ دتہ مرحوم کے بھائی کی بیوہ اور اولاد چچا کی وراثت میں دعویدار ہے اور کہتی ہے کہ بچی کے ساتھ یہ بھی چچا کی وراثت میں حصہ دار ہیں۔
فتوئ طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مرحوم اللہ دتہ کی بیوہ جس نے اب نکاح ثانی کر لیا ہے اور اللہ دتہ کی وراثت میں حصہ دار ہے اور اس کے علاوہ مرحوم کی اولاد لڑکا اور لڑکی جو کہ بظاہر غیر مسلم (عیسائی) مرحوم کی وراثت میں حصہ دار ہیں یا نہیں؟ اور کیا مرحوم اللہ دتہ کے بھائی کی بیوہ اور اولاد مرحوم چچا کے لڑکا اور لڑکی کے محروم وراثت ہونے کی صورت میں وراثت کی حقدار ہوگی یا نہیں؟

جواب

اگر تو مرحوم کی غیر مسلم دو بیویوں کی اولاد ایک لڑکا اور ایک لڑکی کافر ہیں اور مسلمان نہیں ہوئے جیسا کہ سوال کے آخر میں ذکر کیا گیا ہے تو یہ اپنے مرحوم باپ کی وراثت میں سے کسی بھی چیز کے حقدار نہیں۔ اس کے لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

لا يرث المسلم الكافر ولا الكافر المسلم۔

اب چونکہ دونوں کی ملتیں الگ الگ ہیں لہذا اولاد وراثت سے محروم رہے گی۔
اب باقی بچی مرحوم کی تیسری مسلمان بیوی تو اس کو مرحوم کے کل مال کا 1/4 حصہ ملے گا۔ باقی بچ جانے والا مال مرحوم کے بھتیجوں کو بطور عصبہ ملے گا۔ ان بھتیجوں کی والدہ یعنی مرحوم کی بھابھی اور اس کی بھتیجیاں محروم رہیں گی۔ اس لیے کہ اس کا شوہر یعنی مرحوم کا بھائی وراثت کی تقسیم سے پہلے ہی فوت ہو گیا ہے۔ لہذا تقسیم کچھ اس طرح سے ہو گی:
بیوی کو 1/4
بھتیجے بطور عصبہ
اصل مسئلہ 4 سے ہو گا۔ 1 حصہ بیوی کو اور باقی ماندہ 3 حصے تین بھتیجوں کے یعنی سب کا ایک ایک حصہ۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ