خبر ہے کہ حماس کے زیر کنٹرول علاقے غزہ سے آج پھراسرائیل پر راکٹ حملوں کی برسات کر دی گئی متضاد اطلاعات کے مطابق چھ سے لے کر 22 اسرئیلی ہلاک ہو چکے ہیں اور سب سے اہم خبر یہ ہے کہ فلسطینی جنگجوؤں نے سرحد کو بھی عبور کر لیا ہے۔ بظاہر یہ بہت پرجوش اطلاع ہے کہ جس سے خون رگوں میں تیز گردش کرتا ہے ۔
مظلوم فلسطینی کہ مدتوں سے اپنے ہی ذاتی گھروں سے بے گھر ہوئے، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ان کی تیسری نسل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔ یہ کتنی المناک بات ہے کہ کوئی آئے اور آپ کو آپ کے گھر سے باہر نکال دے۔
سو یہی المیہ فلسطینیوں پر بیتا اس وجہ سے مزاحمت، مسلسل مزاحمت مدت سے جاری ہے  خود اسرائیلیوں کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ کبھی بھی یہاں پر پرسکون نہیں رہ سکتے لیکن پرکھوں سے جڑی ارض مقدس سے محبت ان کو بھی جنگ کے باوجود یہاں ٹھہرائے ہوئے ہے۔
دوسری طرف فلسطینیوں کہ جن کی یہ سرزمین ہے وہ کیوں کر اس سے جدا ہو سکتے ہیں سو جنگ جاری ہے اور مسلسل جنگ جاری ہے، اور نسلوں سے وارثت میں ملی جنگ جاری ہے۔
آج کے ان راکٹ حملوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے وہ آپ اسرائیلی وزیراعظم کے ان بیانات سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
اسرئیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے قوم سے خطاب میں کہا کہ: “ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔ یہ نہ ہی کوئی آپریشن ہے اور نہ کوئی راؤنڈ بلکہ یہ کھلی جنگ ہے۔ نیتن یاہو نے فوج کو حکم دیا کہ جن سرحدی علاقوں میں حماس کے جنگجو موجود ہیں انہیں فوری کلیئر کیا جائے۔۔۔۔اسرائیلی وزیرِ اعظم نے کہا کہ حماس کو حملے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔”
یہاں  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسرائیلی وزیراعظم کے دعوے کے مطابق یہ کھلی جنگ ہے اور دوسری طرف حماس کے لڑاکے نوجوان سرحد عبور کر چکے ہیں اور خبریں ہیں کہ سرحدی شہر کی سڑکوں پر وہ گشت کر رہے ہیں تو ایسی صورت میں فلسطینی کس درجے کی مزاحمت کر سکیں گے۔
کیونکہ جوابی کاروائی میں اسرائیل کے ٹینک زمین پر ان کے سامنے آئیں گے اور آسمانوں سے ان کے طیارے آگ کی برسات کریں گے جب کہ مقابلے میں جذبہ ایمانی کے سوا صرف راکٹ ہیں یا معمول کا اسلحہ،  نہ کوئی توپ خانہ نہ کوئی ٹینکوں کے رجمنٹ اور نہ ہی آسمان سے آگ برسانے والے طیارے ۔ ممکن ہے کہ میرے دوست کہیں گے کہ:
“یہ کیا بزدلوں والی باتیں”
لیکن ایسی دنیا جہاں کوئی قانون، کوئی اخلاقی ضابطہ، کوئی انسانیت کا حقیقی چارٹر نہ ہو اس دنیا میں ظالم نے اپنا حق لینے کی اولین تدبیر یہ ہوتی ہے کہ خود کو پہلے ظالم سے طاقتور کیا جائے، آپ کی معیشت ظالم سے طاقتور ہو آپ کی عسکری قوت ظالم سے طاقتور ہو اور آپ کی اپنے مقصد سے کمٹمنٹ اور لگن ظالم سے زیادہ مضبوط ہو۔ بالکل ہی غلیلوں سے ایف سولہ کا مقابلہ کیسے ممکن ہے ۔؟
جذبہ ایمانی بھی تو اسباب کی دنیا میں کام آتا ہے۔
چلیں طاقت ظالم سے بڑھ کر نہ ہو برابر کی بھی نہ ہو ۔۔۔کچھ مقابلے کے قابل تو ہو۔
عالم اسلام اس جنگ میں فلسطینیوں کی یہ مدد تو کر سکتا ہے کہ جب طوفان گزر جائے، فائر بندی ہو جائے اس کے بعد جو گھر ٹوٹے ہیں ان گھروں کی تعمیر و مرمت کے لیے پیسہ دے دیں اس کے علاوہ عالم اسلام اپنے داخلی انتشار کے سبب فلسطینیوں کی کوئی عملی اور عسکری مدد نہیں کر سکتا۔ ہر ایک کے اپنے مفادات کی جنگ ہے اور اپنی مجبوریوں کی زنجیریں جن میں سب جکڑے ہوئے ہیں یا پھر منافقتوں کے سلسلے ہیں جو پچھلے کئی برسوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔
بہت پرجوش خبریں آ رہی ہیں سوشل میڈیا کی خبروں کی تصدیق تو ممکن نہیں لیکن ابھی تک اسرئیلی فوج کے جرنیل تک سوشل میڈیا پر قید ہو چکے ہیں ۔ بالفرض اسرائیل کا کچھ اچھا نقصان ہو بھی جاتا ہے تو اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ کہیں یہ فلسطینیوں کا نیا نائن الیون نہ ہو جائے ۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر واسطے یہ خود پر مسلط کردہ اسرائیلی جنگ نہ ہو۔
تمام تر خدشات کے باوجود ہماری ہر طرح کی دعا فلسطینیوں کے لیے ہے۔

ابو بکر قدوسی