کلامِ صحابہ میں نبوت کا نور ہوتا ہے
⇚امام مجاہد رحمہ اللہ (١٠٤هـ) فرماتے ہیں :
«كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ إِذَا فَسَّرَ الشَّيْءَ رَأَيْتُ عَلَيْهِ نُورًا».
’’عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جب کسی چیز کی تفسیر کرتے تو مجھے اس پر نور نظر آتا تھا۔‘‘
(فضائل الصحابة لأحمد، زوائد ابنه : ١٩٣٥ وسنده صحیح)
⇚امام معمر بن راشد رحمہ اللہ (١٥٣هـ) فرماتے ہیں :
«أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ أَصَابَتْهُمْ نَفْحَةٌ مِنَ النُّبُوَّةِ».
’’محمد کریم ﷺ کے صحابہ کو خوشبوئے نبوت کا خوشگوار جھونکا نصیب ہوا ہے۔‘‘
(السنة لأبي بكر بن الخلال : ٧٦٦ وسنده صحیح)
⇚ قاضی اسماعیل بن اسحاق جہضمی رحمہ اللہ (٢٨٢هـ) فرماتے ہیں :
“كفى برجل نقصًا أن يرى أنه قد عَلِم من كتاب اللَّه عزوجل ما قصر عن علمه الصحابة والتابعون، أو يرى أنه فوقهم علمًا وفهمًا، أو يظن أنه مثلُهم، لقد خاب وخسر.”
’’کسی بندے کے لیے اتنا نقص ہی کافی ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس نے کتاب اللہ سے وہ علم حاصل کر لیا ہے جو صحابہ اور تابعین حاصل نہیں کر سکے تھے، یا یہ سمجھے کہ وہ علم و فہم میں اُن سے برتر ہے، یا یہ خیال کرے کہ وہ اُن کے برابر ہے۔ بے شک ایسا شخص ناکام اور خسارہ پانے والا ہے۔‘‘
(أحكام القرآن لبكر بن العلاء – رسائل جامعية، صـ ٢٧٩)
⇚امام ابن ابی زید قیروانی رحمہ اللہ (٣٨٦هـ) فرماتے ہیں :
ليس لأحدٍ أَنْ يُحْدِثَ قولًا أو تَأْويلًا لم يَسْبِقْهُ به سَلَفٌ، وإنه إذا ثَبَت عن صاحبٍ قَوْلٌ لا يُحْفَظُ عن غيرِه من الصحابةِ خِلاَفٌ له ولا وِفَاقٌ، أنَّه لا يسَع خِلافُه. وقال ذلك معَنا الشافعيُّ، وأهلُ العراقِ.
’’کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ ایسا قول یا تاویل پیش کرے جس میں اسے سلف کی پیروی نہ ملے، اور اگر کسی صحابی سے کوئی قول ثابت ہو جس کے خلاف یا موافقت میں دوسرے صحابہ سے کچھ بھی محفوظ نہ ہو، تو اس کے خلاف جانا درست نہیں۔ یہی بات امام شافعی رحمہ اللہ (٢٠٤هـ) اور اہل عراق کا بھی موقف ہے۔‘‘
(النوادر والزيادات : ١/ ٥)
… حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ