سوال

قرآن کریم میں ہے کہ اگر مرد کا انتقال ہوجائے اور اسکی وارث ایک ہی بہن ہو تو اس کو جائیداد کا نصف ملے گا۔ اور اگر بہن مر جائے تو اس کے بھائی کو پوری جائیداد ملے گی۔ اور اگر بھائی مرجائے اور اسکی وارث دو بہنیں ہوں تو بھائی کی جائیداد یا وراثت سے ان دونوں کو دو تہائی 2/3 ملے گا۔ اور اگر بھائی مرجائے اور کئی بہن اور بھائی ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا۔

اس حوالے سے کچھ سوالات ہیں:

سوال نمبر 1: بھائی کے مرنے پر ایک بہن کو نصف جائیداد مل رہی ہے تو باقی نصف کہاں جائیگی؟ یعنی 100 روپے میں سے50 مل رہے ہیں تو باقی 50( %50) کہاں جائیں گے؟ ایک کروڑ ہوں تو 50 لاکھ کہاں جائیں گے؟

سوال نمبر ۲: بھائی کے مرنے پر اگر وارث دو بہنیں ہوں تو دونوں کو دو تہائی ملے گا ۔ یعنی 100 میں سے 66.66۔ باقی ایک تہائی 33.33 کہاں جائیگا ؟ ایک کروڑ کی صورت میں 33 لاکھ 33 ہزار کہاں جائینگے ؟

سوال نمبر ۳: کلالہ مرد کے انتقال کی صورت میں اگر ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں یا دو بہنیں ہوں تو 176 آیت کے تحت وہ

سب 2/3 دو تہائی کے حصہ دار ہوں گے جبکہ النساء کی 12 آیت کے تحت وہ سب 1/3 ایک تہائی میں شریک ہونگے۔ یہ تضاد ہو گیا تو کونسا حکم مانا جائیگا اور کیوں؟

سوال نمبر 4: وراثت کی تقسیم النساء آیت 11 اور 12 کے مطابق ایک مرد مر گیا اسکے ماں باپ دونوں حیات ہیں اور ایک بیوی اور دو بیٹیاں ہیں ( کوئی وصیت نہیں اور نہ کوئی قرض ہے) تو النساء کی آیت 11 اور 12 کے تحت وراثت اس طرح تقسیم ہوگی:

دو بیٹیوں کو دو تہائی 2/3

66.66%

(16.66+16.66) 33.34%

12.50%

ماں اور باپ کو 1/6+1/6 دونوں کو کل

بیوی کا حصہ 1/8

اگر 100 روپے ہوں تو تقسیم ٹوٹل %112.50 روپے ہو گئے۔

یعنی 12.50 روپے زیادہ اگر جائیداد ایک کروڑ ہو تو ( 12.50) ساڑھے بارہ لاکھ اضافی رقم کہاں سے آئے گی؟

فیروز عالم ، موبائل نمبر : 2265718-0333،  336-C ، بلاک 1، گلستان جوہر، کراچی

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

ان سوالات و اشکالات کی وضاحت بالترتیب درج ذیل ہے:

سوال نمبر 1، 2:

اگر کوئی مرد فوت ہو جاتا ہے، اور اس کی ایک بہن ہے تو اس کو اس کے ترکے میں سے نصف ملے گا۔ اور اگر بہنیں دو یا دو سے زائد ہیں تو انکو دو تہائی ملے گا۔

آپ کا سوال تھا کہ پہلی صورت میں باقی آدھا اور دوسری صورت میں باقی ایک تہائی کدھر جائے گا؟

جواب: سوال نمبر ایک اور دو کا جواب مشترک ہے، باقی مال کی تقسیم کے حوالے سے تین ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں:

1۔ بقیہ مال عصبات کو دیا جائے گا:

اگر میت کے عصبات (یعنی مرد رشتہ دار جن کا حصہ متعین نہ ہو جیسے بھتیجے، چچا، چچا زاد بھائی وغیرہ) موجود ہوں تو باقی مال ان کو ملے گا۔

2۔ عصبات نہ ہوں تو ذوی الارحام کو دیا جائے گا:

اگر عصبات بھی نہ ہوں تو باقی مال دور کے رشتہ داروں کو دیا جائے گا جنہیں ذَوی الارحام کہا جاتا ہے۔

3۔ کوئی بھی رشتہ دار نہ ہو تو مال واپس بہن یا بہنوں کو رد کیا جائے گا:

اگر نہ عصبات ہوں اور نہ ذوی الارحام تو باقی مال رد کے اصول کے تحت اسی بہن یا بہنوں کو لوٹا دیا جائے گا۔

ویسے مذکورہ صورت میں بقیہ مال کی تقسیم کے حوالے سے علمائے کرام کے مابین تین موقف پائے جاتے ہیں:

1۔ کچھ علماء کے نزدیک بقیہ مال کو مذکورہ ترتیب کے مطابق ہی تقسیم کیا جائے گا۔

2۔ جبکہ بعض دیگر علماء کے نزدیک بہن/بہنوں کو حصہ دینے کے بعد اگر عصبات میں سے کوئی نہ ہو تو بقیہ مال واپس بہن/بہنوں کو ہی لوٹا دیا جائے گا، انکے نزدیک اصحاب الفروض یا عصبات میں سے کسی ایک کی بھی موجودگی میں ذوی الارحام وارث نہیں بن سکتے۔

3۔ اسی طرح بعض علماء کا موقف ہے کہ اس صورت میں بہن/بہنوں کو انکے جصے دینے کے بعد جو مال بچے گا وہ بیت المال میں جمع کروادیا جائے گا۔

سوال نمبر 3:

سورۃ النساء آیت 12 میں بیان ہوا کہ اگر کسی کلالہ کی وراثت میں بہن یا بھائی ہوں تو وہ ایک تہائی (1/3) کے حقدار ہیں، جبکہ آیت 176 میں دو تہائی (2/3) کے وارث بن رہے ہیں۔ بظاہر دونوں آیات میں تضاد ہے۔ کس آیت پر عمل ہوگا اور کیوں؟

جواب:

یہ دونوں آیات مختلف قسم کے بہن بھائیوں کے بارے میں ہیں، اس لیے ان میں کوئی حقیقی تعارض نہیں ہے۔

بہن بھائی تین قسم کے ہوتے ہیں:

1۔ ایک حقیقی/شقیقی: جو ماں باپ دونوں کی طرف سے سگے ہوتے ہیں۔

2۔ پدری/علاتی: جو باپ کی طرف سے سگے ہوتے ہیں۔

3۔ اخیافی: جو ماں کی طرف سے سگے ہوتے ہیں۔

ان دو آیات میں کلالہ کی وراثت کی تقسیم میں جو بظاہر تضاد نظر آرہا ہے، حقیقت میں ان میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ سورہ النساء، آیت نمبر: 12 سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں (جن کی ماں ایک اور باپ الگ الگ ہوں) ان میں سے اگر کوئی فوت ہو جاتا ہے چاہے بہن فوت ہو یا بھائی فوت ہو، اسکے پیچھے ایک بہن یا بھائی ہے تو اس کو چھٹا 1/6 حصہ ملے گا اور اگر ایک سے زائد ہوں، چاہے دو بہنیں، دو بھائی یا مخلوط ہوں تو وہ ایک تہائی 1/3 میں شریک ہوں گے۔

اور سورہ النساء: آیت نمبر: 176 کا تعلق حقیقی اور اور علاتی بہن بھائیوں سے ہے، جو ایک بہن ہو تو اسے 1/2 ملے گا۔ دو یا زیادہ بہنیں ہوں تو 2/3 ملے گا، اور اگر بھائی بہن دونوں ہوں تو مرد کو دو عورتوں کے برابر

یہ دو آیات الگ الگ اقسام کے بہن بھائیوں سے متعلق ہیں، اس لیے ان میں کوئی تضاد یا تعارض نہیں ہے۔

سوال نمبر 4:

ماں، باپ، بیوی اور دو بیٹیوں میں وراثت کو تقسیم کرتے وقت ماں کو چھٹا حصہ باپ کو بھی چھٹا حصہ، بیوی کو آٹھواں حصہ اور دو بیٹیوں کو دو تہائی حصہ ملے گا۔

یعنی بیٹیوں کو 2/3 = 66.66% ، ماں کو 1/6 = 16.66% ، باپ کو 1/6 = 16.66% اور بیوی کو 1/8 = 12.5% ملے گا۔

اس حساب سے تو 100 فیصد سے زائد یعنی 112.50% تقسیم بن رہی ہے۔ یہ زائد 12.50 فیصد کہاں سے آئے گا؟

جواب: یہ مسئلہ عائلہ والی صورت ہے، اس لیے انکے حصص کو درست طریقے سے تقسیم کرنے کے لیے اصل مسئلہ 24 کے بجائے نیا اصل مسئلہ 27 بنالیں گے، تاکہ سب حصے پورے تقسیم ہوں۔

27 حصے یوں تقسیم ہوں گے:

بیوی: 3 حصے، ماں: 4 حصے، باپ: 4 حصے، دو بیٹیاں: 16 حصے اور پھر انکو جمع کرنے سے 3 + 4 + 4 + 16 = 27 حصے مکمل ہوگئے۔ اب 100 روپے یا کروڑ روپے کو 27 حصوں میں تقسیم کر کے، ہر وارث کو اس کا حصہ دے دیا جائے گا۔

اس طرح کوئی رقم زائد نہیں آئے گی، بلکہ تقسیم بالکل پوری پوری ہو گی۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ