سوال (1691)

کیا یہ کلمہ “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” ثابت ہے ؟

جواب

“لا اله الا الله محمد رسول الله” بنیادی طور پر یہ ایک نہیں دو کلمے ہیں۔ اسے پورا ایک کلمہ قرار دے کر اس کی دلیل طلب یا تلاش کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ جو صحیح سند سے نہیں ملتی ہے ، یاد رہے یہ دراصل کلمہ شہادت کا خلاصہ ہے ۔ قبول اسلام کے لیے کلمہ شہادت پڑھنے کا ذکر آتا ہے۔ اس کلمے کا کہیں ذکر نہیں آتا ہے ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

اسلام کی بنیاد توحید و رسالت پر ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کے لیے جس طرح توحید کا اقرار ضروری ہے ، اسی طرح رسالت کا اقرار بھی لازمی ہے۔ توحید و رساالت کا اقرار “لا اله الا الله محمد رسول الله” میں جمع ہے۔ اقرار کی نیت سے “لا اله الا الله محمد رسول الله” پڑھنے والا مسلمان ہو جاتا ہے۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی کو جہنم پر حرام کر دے گا جو اِس بات کی شہادت دے کہ “لا الہ الا اللہ” اور یہ کہ محمد رسول اللہ”
[مسند احمد 318/5، مسند ابی عوانة 16/1]
اسی طرح بخاری (ح : 1369) اور تلخیص الحبیر از ابن حجر عسقلانی (ح: 1705) اور دیگر کتب حدیث میں بہ کثرت احادیث ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں حتی کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ “لا اله الا الله” اور یہ کہ محمد رسول الله”
(مسلم، الایمان، الامر بقتال الناس حتی یقولوا: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، ح : 22]
اگرچہ مکمل کلمہ طیبہ کا ذکر بعض احادیث میں موجود ہے اگر بالفرض بعینہ مکمل کلمہ طیبہ کا ذکر قرآن و حدیث میں نہ ملتا ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے الفاظ میں جمع ہوتی ہے۔ اسی لیے بعض محدثین نے کتب حدیث میں تبویب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے الفاظ سے کی ہے۔ جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح مسلم کی اوپر ذکر کردہ حدیث پر امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی تبویب (باب قائم کرنے) سے ظاہر ہوتا ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں بعینہ “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ابو نعیم الاصبہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
“حدثنا ابو محمد بن حيان ثنا عبدالله بن اسحاق بن يوسف ثنا ابى ثنا حفص بن عمر العدنى ثنا الحكم بن ابان عن عكرمة عن ابن عباس ان النبى صلى الله عليه وسلم قال: ((من خالف دين الله من المسلمين فاقتلوه ومن قال لا اله الا الله محمد رسول الله فلا سبيل لاحد عليه الا اصاب حدا فانه يقام عليه”
[تاریخ اصبھان 261/1، ط۔1، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، اس کی سند میں حفص بن عمر العدنی ضعیف راوی ہے]
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سے جو اللہ کے دین کی مخالفت کرے اسے قتل کر دو (کیونکہ مرتد کی سزا قتل ہے) اور جو شخص”لا اله الا الله محمد رسول الله” کہے اس کا مؤاخذہ کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں مگر جو کوئی حد کو پہنچنے والے جرم کا ارتکاب کرے گا اس پر حد قائم کی جائے گی۔”
نیز اس حدیث کو دیوان النسائی (667) میں اور تحفۃ الاشراف میں من قال ۔۔ کے بیان میں دیکھا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید و رسالت کے اعلان کے طور پر عہد نبوی میں “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کے الفاظ استعمال ہوتے تھے۔
اسی طرح فوائد الحنائی للامام العدل ابی القاسم الحسین بن محمد الحنائی المتوفی 209ھ میں 154/1 پر، جس کی تخریج الامام الحافظ ابی محمد عبدالعزیز بن محمد النخشی المتوفی 456ھ نے کی ہے، یہی روایت موجود ہے اور انہوں نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ هذا حديث صحيح ، نیز دیکھیں تاریخ دمشق 258/63، تفسیر طبری (31650) 254/10،ط: دارالحدیث القاھرۃ، 309/21 بتحقیق الدکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، کتاب الایمان لابن مندۃ (200)، ص: 16

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ