کالم نگار جو اپنے لکھے پر دنیا میں ہی پکڑے گئے

حدیث ہے کہ جو شخص جس کام کیلئے پیدا کیا گیا،وہ کام اس کیلئے آسان کر دیا جاتا ہے۔ یہ بات زندگی کے عام مشاہدے میں آتی رہتی ہے۔ ہم کچھ لوگوں کو بہت مشکل کام بڑی آسانی سے کرتے دیکھتے ہیں، جب کہ وہی مشکل کام کرنے والے لوگ ہمارے نزدیک آسان سمجھا جانے والا کام نہیں کر سکتے۔ مثلا ایک ادیب ایک مزدور کی طرح سارا سارا دن بوجھ نہیں ڈھو سکتا اور ایک مزدور ایک ادیب کی طرح ادب تخلیق نہیں کر سکتا۔ ایک کا کام دوسرے کیلئے ناممکن حد تک مشکل قرار پاتا ہے۔ سیدنا داؤد علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ لوہا ان کے ہاتھ میں موم ہو جاتا تھا،وہ جیسے چاہتے اس سے زرہ وغیرہ بناتے رہتے۔
یہ احساس مجھے جناب حیات عبداللہ صاحب کی تازہ اور نادر روزگار کتاب دیکھنے کے بعد ہو رہا ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع اور کام کے حوالے سے منفرد ترین تحقیقی کتاب ہے۔ یہ کتاب ویسے تو کسی جادوگر کے خوفناک طلسماتی آئینہ کے مانند محسوس ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اس آئینے سے پاکستان کا کوئی بھی کالم نگار شاید ہی محفوظ رہا ہو۔ہم اخبارات میں بڑے بڑے کالم نگاروں کے کالمز میں اشعار پڑھ کے حیران رہ جاتے ہیں کہ کتنے اشعار ان کالم نگاروں کو یاد ہوتے ہیں، جو موقع بہ موقع وہ کالم کی مانگ میں سجاتے چلے جاتے ہیں۔ حیات عبداللہ صاحب مگر کسی بھی کالم نگار کے کالم میں اشعار دیکھ کر بالکل مبہوت اور حیران نہیں ہوتے، بلکہ ان کی آنکھوں میں وہی چمک آجاتی ہے۔جو شکار کو دیکھ کے شکاری کی آنکھوں میں در آتی ہے، کیونکہ حیات عبداللہ صاحب کے تجربے نے انھیں بتایا ہے کہ کالم نگار جتنا بھی بڑا، مشہور اور مسحور کن نثر لکھنے والا ہی کیوں نہ ہو، کالم میں شعر وہ ضرور غلط ہی لکھے گا۔ چنانچہ جب حیات عبداللہ صاحب نے کالموں میں لکھے گئے ایسے اشعار پر نشان لگانے شروع کیے تو وہ ایک پوری کتاب بن گئی۔ جس کا نام انھوں نے کھوج رکھا ہے، ویسے ایک کتاب تو وہ ہے جو ہمارے کندھوں پر بیٹھے فرشتے ہماری غلطیوں کی مرتب فرما رہے ہیں،یہ کتاب البتہ اس کتاب سے جدا طور پر حیات صاحب نے کالم نگاروں کی غلطیوں کی تیار کی ہے۔ بے چارے کالم نگار ایک تو فرشتوں کی لکھی کتاب پر آخرت میں پکڑے جائیں گے، دوسرے وہ حیات صاحب کی لکھی کتاب پر دنیا میں ہی پکڑے جا چکے ہیں۔ گویا حیات صاحب ان کی حیات ہی میں ایک سزا کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔
بہرحال یہ ایک علمی، محنت طلب،خرد افروز اور ضروری کام تھا ،جو اللہ نے اس استاد ،شاعر اور کالم نگار پر آسان کر دیا۔چنانچہ اگر آپ یہ معلومات اور شعور حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ کس قومی سطح کے کالم نگار نےاپنے کس کالم میں کس شعر کو غلط لکھا، یا غلط شاعر کی طرف منسوب کرکے لکھا، تو وہ سب اس کتاب میں درج کر دیا گیا ہے۔ یہ کتاب اس لیے بھی بڑی مفید بن گئی ہے کہ یہ قومی شعور میں اتر چکی شعری غلطیوں اور غلط فہمیوں کی اصلاح کرتی ہے۔
حیات صاحب نے جب یہ سلسلہ بطور کالم اخبار میں لکھنا چاہا تو اکثر اخبارات نے تو اسے چھاپنے سے ہی معذرت کر لی تھئ۔ دراصل ان کے کالم نگار ہی اس کالم کی تاب نہ لا سکتے تھے، خیر کچھ اخبارات نے یہ جی گردہ دکھایا بھی۔ کتاب پر عطاالحق قاسمی صاحب، اشرف شریف صاحب، ناصر بشیر صاحب اور دیگر نے تبصرہ لکھا ہے۔ شکر ہے، انھوں نے تبصرہ کرتے وقت کوئی شعر نہیں لکھا، ورنہ ہو سکتا ہے کہ وہیں، حاشیہ میں حیات صاحب بتاتے کہ میرے حق میں تبصرہ اگرچہ درست ہے، مگر شاعر کے حق میں شعر میں فلاں خامی بھی اس تبصرے میں پائی گئی ہے۔ کتاب ابھی پوری نہیں دیکھ سکا، اس نامہ اعمال میں اس خاکسار کی غلطیاں بھی درج ہیں یانہیں،اللہ کرےاس کتاب کا دورانیہ میرے کالم لکھنا تقریبا دینے کے بعد پر محیط ہو۔
بہرحال حیات عبداللہ صاحب کے اس قیمتی اور منفرد کتاب بھیجنے پر ان کا بہت شکریہ۔ اللہ ان سے مزید علمی و ادبی کام لے۔ خواہ یہ کام نثر نگاروں کی مذمت اور مرمت پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو۔

#یوسف_سراج

حیات عبد اللہ صاحب کے تمام کالمز پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں