اپنی شرح “العقیدۃ الواسطیۃ” کے ایک باب کا خلاصہ
وَمِنْ أُصًولِ أَهْلِ السُّنَّةِ: التَّصْدِيقُ بِكَرَامَاتَ الأَوْلِيَاءِ
’’اہل سنت کااصول یہ بھی ہے وہ کرامات اولیاء کی تصدیق کرتے ہیں۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس عقدی جملہ میں تین الفاظ اور ایک اصطلاح ایسی ہے جن کی وضاحت از حد ضروری ہے جس سے اس عقیدہ کی مکمل وضاحت ہو جائے گی۔
تصدیق سے کیا مراد ہے؟
کرامات سے کیا مراد ہے ؟
اولیاء کون ہوتے ہیں؟
کرامات اولیاء سے کیا مراد ہے؟
تصدیق سے کیا مراد ہے؟
کسی بات کو ماننا تصدیق کہلاتا ہے اور اسی کیفیت کو ایمان لانا سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے گویا کہ اس ماننے میں امن، امانت اور بھروسہ پایا جا رہا ہےاور شرعی رو سے دل سے یقین، زبان سے اظہار، جسمانی طور پر عمل کا نام۔ ایسا ماننا جس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو اسی لیے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا خطاب ملا تھا کہ ان کی تصدیق میں کوئی شک و شبہ نہ تھا۔
کرامات سے کیا مراد ہے ؟
لغت کے اعتبار سے”کرامات” لفظ “کرامۃ” کی جمع ہے، جس کا معنی ہے “خارقِ عادت امر” یعنی انسانوں میں معلوم ومعروف امر کے برعکس امر کا وقوع۔
اور شرعی اصطلاح میں کرامت سے مراد وہ خرق عادت امور جنہیں اللہ تعالی اپنے اولیاء کے ہاتھوں پر جاری فرماتا ہے۔ جس سے مقصود اس کی تائید ہوتی ہے، یا اعانت یا تثبیت یا پھر دین کی نصرت و اعانت۔
اس کی مثال علاء بن حضرمیؓ کے ساتھ پیش آنے والا دریا عبور کرنے کا واقعہ ہے۔ اسی طرح دریائے نیل کو عبور کرتے وقت سعد بن ابی وقاصؓ کے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ یہ دونوں واقعات تاریخ میں بڑی شہرت رکھتے ہیں۔
پس کرامت، خارق عادت واقعہ سے عبارت ہے مگر جس چیز کا اظہار عادت کے مطابق ہوا اسے کرامت نہیں کہا جاتا۔ اللہ تعالیٰ اس چیز کو ولی کے ہاتھ پر جاری کرتا ہے تاکہ جادو اور شعبدہ بازی کے امور سے احتراز کیا جاسکے جو لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے اور ان کی عقول و افکار سے کھیلتے ہیں۔ کرامت قرآن و سنت اور واقع سے ثابت ہے۔ اس کا اظہار پہلے بھی ہوتا رہا اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔
اولیاء کون ہوتے ہیں؟
“الاولیاء” لفظ “ولی” کی جمع ہے اور ولی” لفظ “الولاء” سے مشتق ہے جس کا معنی محبت وقرب ہے۔ پس “ولی اللہ” وہ شخص ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی پسند اور مرضی کے کاموں میں اس کی موافقت کرکے اس سے محبت کرتا ہو۔یعنی ولی ہر مومن ومتقی شخص ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (یونس: 62-63)
یاد رکھو اللہ تعالی کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ یہ وہ ہیں کہ جو ایمان لائے اور سے پرہیز کرتے ہیں یعنی تقوی اختیار کرتے ہیں
کرامات اولیاء سے کیا مراد ہے؟
سب سے پہلے جان لیں کہ کراماتِ اولیاء برحق ہیں۔ کتاب وسنت اور صحابہ وتابعین سے منقول ہیں۔ آثارِ متواترہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں۔
کرامات اولیاء کے حوالے سے لوگوں کے تین قسمیں ہیں:
1) نفی و انکار کرنے والے :معتزلہ، جہمیہ اور بعض اشاعرہ وغیرہ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اولیاء کے ہاتھوں پر امورِ خوارق کے ظہور کو جائز مان لیں تو نبی اور غیر نبی میں تفریق نہیں ہوسکے گی کیونکہ نبی اور غیر نبی میں فرق معجزہ ہے جو کہ ایک خرق عادت امر ہوتا ہے۔
2) اثباتِ کرامات میں غلو کرنے والے: صوفیاء اور قبر پرست۔ یہ لوگوں کے ساتھ دجل و فریب سے کام لیتے ہیں اور شیطانی خرقِ عادت امور ظاہر کرتے ہیں مثلاً: آگ میں داخل ہونا، اپنے آپ کو اسلحہ سے مارنا، اور سانپوں کو پکڑ لینا وغیرہ جیسے دیگر تصرفات جنہیں یہ لوگ اصحابِ قبور کے لیے ثابت مانتے ہیں اور انہیں ان کی کرامات کہتے ہیں۔
3) اہل سنت وجماعت جن کا ذکر شیخؒ الاسلا م ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے اس جملے میں کیا ہے۔ چناچہ یہ لوگ کرامات اولیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور انہیں کتاب وسنت کے تقاضے کے مطابق ثابت مانتے ہیں۔
(اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان کے مابین امتیاز سے متعلق شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کی ایک عظیم تألیف بھی ہے جس کا نام “الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان”ہے) (ماخوذ شرح عقیدہ واسطیہ از شیخ صالح الفوزان اردو ترجمہ بعنوان عقیدۂ فرقۂ ناجیہ ص 333-336)
معجزات، کرامات، استدراج اور خرافات میں فرق
معجزہ:ایسی خلاف عادت باتیں اللہ تعالی اپنے رسولوں اور نبیوں کے ہاتھ پر ان کی تصدیق و تائید کے لیے ظاہر کرا دیتا ہے، جن کے کرنے سے دنیا کے لوگ عاجز ہوتے ہیں، تاکہ لوگ ان باتوں کو دیکھ کر اس نبی کی نبوت پر ایمان لے آئیں۔
کرامت: کوئی خلاف عادت بات کسی نیک، متبع سنت اور پابندِ شریعت مومن کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو ایسی خلاف عادت بات کو ” کرامت” کہتے ہیں۔
استدراج :خلاف عادت بات کسی غیر مسلم یا ایسے شخص کے ہاتھ پر ظاہر ہو جو فاسق، فاجر اور خلاف سنت و شریعت کام کرتا ہو تو ایسی خلاف عادت بات کو “استدراج” کہتے ہیں۔
خرافات:ہر ایسی بے سروپا بات جو سننے میں بھلی لگے، جبکہ حقیقت میں وہ جھوٹ، غلط اور بیہودہ عقیدہ پر مبنی ہو، ایسی بات کو “خرافات” کہتے ہیں۔ (الموسوعة الفقهية الكويتية: (218/34، ط: وزارة الأوقاف و الشئون الإسلامية)
دنیا میں خلافِ عادات (خوارق عادات) امور کا ظہور تین طرح سے ہوتا ہے :
1) انبیاء کے معجزات کے طور پر
2) اولیاء اللہ کی کرامات کے طور پر
3) کاہن و جادوگر کی کارستانی کے طور پر
معجزہ کا ظہور انبیاء کے ہاتھوں ہوتا ہے جس کا سلسلہ خاتم الانبیاء محمد ﷺ کے ساتھ منقطع ہوگیا ۔ اب تا قیامت معجزات کا ظہور نا ممکن ہے،
معجزات و کرامات میں بنیادی فرق:
1) خارق عادت امر کا ظہور انبیاء کے ہاتھوں ہوتو اسے معجزہ کہتے ہیں اوراگر ان کاظہور اولیاء اللہ کے ہاتھوں ہوتا ہے اسے کرامت کہتے ہیں۔
2) صاحب معجزات ( انبیاء ) معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں جبکہ صاحب کرامات (اولیاء) معصوم عن الخطاء نہیں ہوتے ہیں۔
3) معجزات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ حجت قائم کرتا ہے کہ نبی کا مشن سچا ہے اور لوگوں کے لئے ایک چیلنج ہوتا ہے جبکہ کرامات میں ایسا نہیں ہوتا ہے
4) معجزات میں چیلنج شامل ہوتا ہے جسے پیش کرنے سے دنیا قاصر ہوتی ہے ، اور صاحبِ معجزات نبوت کا دعویدار ہوتا ہے جبکہ کرامات میں چیلنج یا دعوۂ نبوت شامل نہیں ہوتا ہے ۔
5) معجزات کا سلسلہ خاتم الانبیاء محمد ﷺ کے ساتھ منقطع ہو گیا جبکہ کرامات کا سلسلہ روز قیامت تک باقی رہے گا۔
6) معجزات اس بات پر غمّاز ہوتے ہیں کہ انبیاء اپنے دعوتی مشن میں سچے ہیں اور اللہ کی طرف سے مبعوث کردہ ہیں اور کرامات اس بات پر دال ہیں کہ ولی اللہ جس نبی کی اتباع کررہا ہے وہ نبی سچا ہے اور اس کی تعلیمات برحق ہیں۔
7) صاحب کرامات اپنے اعمال و افعال میں بسا اوقات غلط ہوسکتا ہے چونکہ وہ اپنے اقوال و افعال میں مجتہد ہوتا ہے جبکہ صاحب معجزات اللہ کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے لہٰذا کرامت ولایت پر دال ہے لیکن معصومیت پر نہیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا :’’وکرامات الصالحین تدل علٰی صحۃ الدین الذی جاء بہ الرسول ولا تدل علٰی ان الولی معصوم ولا علیٰ انہ یجب طاعتہ فی کل ما یقولہ‘‘’’ولی اللہ کی کرامت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ نبی جو دین لے کر آئے ہیں وہ دین سچا ہے ۔ کرامت اس بات پر دلالت نہیں کرتی ہے کہ ولی اللہ معصوم ہے اور نہ ہی اس بات پر غماز ہے کہ ولی کی ہر بات قابل اطاعت ہے ‘‘ [النبوات لابن تیمیۃ ]
مطلق طور پر صاحبِ معجزات (نبی) کی اطاعت لازم ہے جبکہ صاحب کرامات(ولی) کی اطاعت لازم نہیں ہے ۔
9) کرامات کا ظہور خود صاحب کرامات کے ایمان کو تقویت دیتا ہے اور بسا اوقات اس کا ظہور ولی اللہ کو مشکل حالات سے نکالنے کے لئے ہوتا ہے جبکہ معجزات کا ظہور انبیاء کے ایمان کو تقویت دینے کی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد لوگوں پر حجت قائم کرنے کی غرض سے ہوتا ہے ۔
10) کرامات کا ظہور ولی اللہ کی ضرورت کے پیش نظر ہوتا ہے برخلاف معجزات کے چونکہ اس کا ظہور مخلوق کی ہدایت کی خاطر ہوتا ہے ۔
11) کرامت کا حصول استقامت دین اور اتباع نبی سے ہوتا ہے ۔گویا کرامت کا ظہور ہوتا ہی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی سچا ہے ۔ (شرح العقائد النسفیۃ،ص144) (کتاب النبوات ۔لشیخ الاسلام ابن تیمیہ)

فیض الابرار صدیقی