معجزات اور کرامات کے فروق کے بعد کرامات اولیاء اور جادوگر و کاہن کی کارستانیوں میں فرق کرنا آسان ہو جائے گا۔ اس لیے جادوگر یا کاہن کے تصرفات کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں:
1) جن و شیطان کے تصرفات: اللہ تعالیٰ نے انسان کے مقابلے میں جن و شیطان کو زیادہ تصرفات کی قوت دی ہے، انسان انہیں دیکھ نہیں سکتے جبکہ وہ انسانوں کو اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں ۔سلیمان علیہ السلام کے دور میں ملکۂ سبا کے تخت کو حاضر کرنے کا قصہ معروف ہے اس کا تذکرہ اللہ نے سورۃ النمل میں کیا ہے ا[النحل :۳۹]
2) جادوگر کے تصرُّفات: جادو کا وجود برحق ہے ۔ اس کا ذکر احادیث اور آیات قرآن میں ملتا ہے۔ جادو کے ذریعہ انسان کو بیمار کیا جا سکتا ہے جادو سے اشیاء کو غائب کیا جا سکتا ہے۔ اس کی تفصیل سورہ البقرۃ کی آیت سحر میں پائی جاتی ہے۔ [البقرۃ:۱۰۲]
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جادو بر حق ہے، اثر دار ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اسی لئے آپ ﷺ نے اس سے پناہ مانگنے کی تلقین کی ہے ۔
3) کاہنو ں کے تصرفات: کاہنوں کی شیطان پرستی، اٹکل پچّو مارنا اور لوگوں کو گمراہ کرنا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس کا وجود صدیوں سے رہا ہے ۔دراصل شیطان کی رسائی آسمان دنیا تک ہوتی ہے ۔ لہٰذا وہ وہاں پہنچ کر فرشتوں کی باتیں سننے کی کوشش کرتے ہیں ، دریں اثناء ایک شعلہ ٹوٹتا ہے جو انہیں بھسم کر دیتا ہے ،بسا اوقات شعلہ کی گرفت سے شیطان بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار امرِ الٰہی کا ایک آدھ حصہ اچٹ لیتے ہیں ، انہیں اچٹتی ہوئی ایک آدھ بات میں سو جھوٹ ملا کرکاہنوں کے کان میں ڈال دیتے ہیں ۔ پھر وہ کاہن اپنی طرف سے بہت سے حاشیے چڑھا کر اپنے پیروکاروں کو بتلاتا ہے اور اسی طرح جھوٹی موٹی غیب کی خبریں دے کر عوام کو دجل وفریب میں پھنسا کر گمراہ کرتے ہیں ۔ قرآن کی آیت ہے :

{ ہَلْ أُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیَاطِینُ ۔تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ أَفَّاکٍ أَثِیمٍ ۔یُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَکْثَرُہُمْ کَاذِبُونَ}

’’کیا میں تمہیں بلاؤں کہ شیطان کس پراترتے ہیں ، وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں ، اچٹتی ہوئی سنی سنائی پہنچا دیتے ہیں ، اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں ‘‘ [الشعراء: 221۔223]
اسی طرح ایک حدیث ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :

’’اَلمَلاَئِکَۃُ تَتَحَدَّثُ فِی العَنَانِ – وَالعَنَانُ:الغَمَامُ ۔، بِالأَمْرِ یَکُونُ فِی الأَرْضِ، فَتَسْمَعُ الشَّیَاطِینُ الکَلِمَۃَ، فَتَقُرُّہَا فِی أُذُنِ الکَاہِنِ کَمَا تُقَرُّ القَارُورَۃُ، فَیَزِیدُونَ مَعَہَا مِائَۃَ کَذِبَۃٍ‘

‘’’فرشتے کسی دنیاوی معاملات کے تعلق سے آسمان میں بات کرتے ہیں ۔شیطان ایک آدھ کلمہ اچک کر کاہن کے کان میں ڈال دیتا ہے پھر وہ لوگ اس میں سوجھوٹ ملاتے ہیں

‘‘ [صحیح البخاری:3288]
اس فرق کو مزید سمجھنے کے لیے کرامات اولیاء کے حؤالے سے کتاب و سنت سے کچھ واقعات و مثالیں پڑھ لیں
1) مریم علیہا السلام کا واقعہ: زکریا علیہ السلام جب مریم علیہا السلام کے حجرے میں جاتے اور خورو نوش کی اشیاء ان کے پاس موجود پاتے تو پوچھتے یہ کہاں سے آیا ؟ تو مریم علیہا السلام فرماتیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ [آل عمران:37]
2) اصحاب کہف کا واقعہ: چند نوجوان اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے کسی غار میں جاکر پناہ گیر ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی نیند ڈالی کہ وہ مدتوں سوتے رہے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں بیدا ر کیا۔ بہرحال خوردونوش اور دیگر ضرورتوں کے بغیر ایک زمانہ تک سوتے رہنا انتہائی خلاف معمول ہے ۔ (سورۃ الکہف 9 تا28 )
3) سلیمان علیہ السلام کی فرمائش پر آپ کی رعایاکا ایک شخص تخت بلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کردیا۔(سورۃ النمل 40)
4) تین غار والوں کے ساتھ کرامات: (صحیح بخاری :2215)
5) ایک نیک کسان کا واقعہ: اللہ تعالیٰ نے اس کی کھیت کی سیرابی کے لئے خصوصی طور پر بادلوں کو حکم دیا اور بادلوں نے کھیت کو سیراب کیا ۔[صحیح مسلم :باب الصدقۃ فی المساکین: ح:2984]
6) جریج راہب کا واقعہ: جریج جو ایک متقی ،نیک صالح اور عبادت گزار بندے تھے جب ان پر زنا کا الزام لگا تو انہوں نے نومولود بچے سے مخاطب ہوکرکہا کہ تمہارا باپ کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو نطق کی صلاحیت عطا فرمایا اور اس نے کہا فلاں کسان ہے[صحیح مسلم :2550]
7) سارہ کا واقعہ: جب ظالم بادشاہ نے دست درازی کرنا چاہا تو اس کا ہاتھ شل ہوگیا لیکن پھر سارہ علیہا السلام کی دعا سے صحیح ہوگیا ۔ [صحیح مسلم :2371]
سیدہ مریم کا واقعہ بھی اسی قبیل سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس وقت عزت دی جب وہ درد زہ کی وجہ سے کھجور کے تنے کے پاس پہنچیں تو اللہ تعالیٰ نے اسے ہلانے کا حکم دیا تاکہ وہ ان پر تروتازہ کھجوریں گرادے۔
(مزید واقعات کے لیے کتاب احادیث ملاحظہ کریں مثلا صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل؛ کتاب ’’الفرقان بن اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطان‘‘ از شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ۔ امام اللالکائی رحمہ اللہ کی کرامات اولیاء کا مطالعہ مفید رہے گا )
یہ بطور مثال صرف چند واقعات بیان کیے گئے ہیں وگرنہ اس حوالے سے بے شمار واقعات کتاب و سنت میں مذکور ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی نبوت کی تائید و اثبات کے لئے بہت سارے معجزات عطا فرمائے ہیں جس سے اہل ایمان کے دلوں کو ثبات اور معاندین کے اوپر حجت قائم ہوتی ہے ۔ اسی طرح اولیاء کرام رحمہم اللہ کے حوالے سے افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اولیاء اللہ نہ ہی معصوم ہوتے ہیں اور نہ غیب جانتے ہیں اور نہ ہی کائنات میں تصرفات کا حق رکھتے ہیں ، اولیاء اللہ کی کرامات کی تصدیق کرتے ہیں ، انبیاء کرام اولیاء اللہ سے افضل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی اطاعت کو لازم قراردیا ہے لیکن اولیاء کی اطاعت لازم نہیں ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم کسی ولی کو کسی نبی پر فوقیت نہیں دیتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ ایک اکیلا نبی تمام اولیاء سے بہتر ہے‘‘ [شرح العقیدۃ الطحاویۃ]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
سلف ِ امت ،ائمہ کرام اور تمام اولیا ء اللہ کا اتفاق ہے کہ انبیاء کرام اولیاء سے بہتر ہیں[مجموع فتاویٰ ابن تیمیۃ:ج:۱۱،ص:22]
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولیاء اللہ انبیاء سے جدا ہیں ۔ معصوم نہیں ہیں بلکہ جس طرح دیگر اللہ کے مومن بندوں سے غلطیاں ہوتی ہیں ان سے بھی ہو سکتی ہے‘‘[ولایۃ اللّٰہ والطریق الیھا للشوکانی]
قال الطحاوی: ’’اولیاء اللہ کی کرامات کے تعلق سے جو ثقہ روات سے ثابت ہے اس کی ہم تصدیق کرتے ہیں ‘‘[شرح الطحاویۃ:2؍724]
جہاں تک کرامات اولیاء کے ثبوت کے لیے واقعاتی شہادت کا تعلق ہے تو انسان اپنی زندگی میں اس کا کئی بار مشاہدہ بھی کرتا ہے یا اخبار صادقہ کے ذریعے ان سے آگاہ ہوتا رہتا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ کرامات کسی شخص کی تائید و تثبیت یا اعانت کے لیے ہوتی ہیں یا حق کی نصرت و معاونت کے لیے۔ یہی وجہ ہے کہ کرامات کا اظہار صحابہ کرام ﷺ سے زیادہ تابعین کے ہاتھوں پر ہوا، جس کی تفصیل یہ ہے صحابہ کرامؓ اپنے اندر پائی جانے والی تثبیت و تائید اور نصرت حق کی وجہ سے کرامات سے بے نیاز تھے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ بہ نفس نفیس ان میں تشریف فرما تھے اور چونکہ تابعینؒ اس سے کم درجے کے حامل تھے، لہٰذا ان کے زمانے میں کرامات کا ظہور کثرت سے ہوا جس سے مقصود ان کی تائید و تثبیت اور اس حق کی نصرت و معاونت تھی جس پر وہ کارفرما تھے۔
تبصرہ: کرامات اولیاء کو لسی بنا کر اس میں پانی ڈالنا شروع کر دیں تو پھر وہی کچھ ہو گا جو پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ہو رہا تھا۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ کرامات اولیاء کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے ایک خوبصورت اصولی قاعدہ بیان کیا تھا کہ “ہر مختلف فیہ مسئلہ میں سب سے پہلے کتاب و سنت کی اصل کو سمجھنے کی کوشش کریں اختلاف اگر ختم نہ بھی ہو تو کم ضرور ہو جائے گا”۔

فیض الابرار صدیقی