سوال (5051)
کربلا میں سیدنا حسین ؓ و دیگر اھل بیت کو ذبح کرنے والے قاتلوں کی نقاب کشائی یزید بن معاویہؒ تو ملک شام میں تھے اور کربلا میں اس وقت کون تھا اہل تشیع شیعہ کے آخری امام کی کتاب سے چند اقتباسات روافض کے خاتمۃ المحدثین ملا باقر مجلسی کی گواہی۔
“وکان جمیع من حضر مقتل حسین من العساکر وحاربه وتولی قتله من اھل الکوفة خاصة لم یحضرھم شامی۔”
وہ تمام لوگ جنہوں نے حسین سے قتال میں حصہ لیا، اور ان کے خلاف جنگ کی اور انہیں قتل کیا، یہ سب کے سب اہل کوفہ میں سے تھے، شام کا کوئی بھی شخص ان کے ساتھ موجود نہیں تھا۔
[کتاب بحار الانوار ج ۱۰ ص ۲۳۱]
رافضی محدث اعظم مسعودی کی گواہی
روافض کی معتبر ترین کتاب مروج الذھب کا مصنف مجتہد مسعودی اپنی کتاب میں قاتلوں کی نقاب کُشائی کررہا ہے۔
“وتولی قتله من اهل الکوفة خاصة لم یحضرهم شامی۔”
حسینؓ کو خالص کوفیوں نے قتل کیا ہے، ان میں بھی کوئی بھی شامی موجود نہیں تھا۔
رافضی مجتہد علی محمد ہادی کی گواہی۔
“لیس فیهم شامی ولا حجازی بل جمیعهم من اهل الکوفة۔”
حسین کے قاتلوں میں کوئی بھی شامی یا حجازی نہیں تھا، بلکہ سب کے سب کوفی تھے۔
[خلاصة المصائب ص ۲۰۱]
کربلا میں زندہ بچنے والے شیعہ کے چوتھے مزعومہ معصوم امام سیدنا علی بن حسین المعروف امام سجاد و امام زین العابدین جن کی عمر اس وقت تقریبا بائیس تئیس سال تھی، اور وہ دو بچوں کے والد تھے، ہنگامہ ختم ہونے کے بعد عمر بن سعد سیدنا حسین کے خاندان کے بقیہ بچ جانے والے افراد کو کوفہ لے کر آئے، جب یہ قافلہ کوفہ کے قریب پہنچا، تو کوفے کی خواتین باہر نکل نکل کے رو رہی تھیں، یہ منظر دیکھ کے سیدنا علی بن حسین (مزعومہ چوتھے معصوم امام زین العابدین) نے کہا: اگر یہ رو رہی ہیں تو ہمیں قتل کس نے کیا ہے؟
احمد بن ابی یعقوب ابن جعفر مجتہد و مؤرخ شیعہ اپنی تاریخ یعقوبی میں سیدنا زین العابدین کا اس وقت کا فرمان ان الفاظ میں درج کرتا ہے۔
“لما دخل علی بن الحسین الکوفة رای نساءها یبکین ویصرخن فقال! هٰؤلاء یبکین علینا فمن قتلنا؟ ای من قتلنا غیرهم م!
جب علی بن حسین کوفہ میں داخل ہوئے، تو دیکھا کوفہ کی عورتیں رو رہی ہیں، اور چیخ بین کر رہی ہیں، یہ دیکھ کے علی بن حسین نے کہا!
اگر یہ ہم پہ رو رہی ہیں، تو پھر ہمیں قتل کس نے کیا ہے؟ [تاریخ یعقوبی ج ۱ ص ۲۳۵]
ابو منصور احمد بن علی بن ابی طالب چھٹی صدی ہجری کی ابتداء کا شیعہ کا سب سے بڑا محدث اپنی کتاب ” احتجاج طبرسی “میں یوں لکھتا ہے!
“جب بیمار زین العابدین اپنی مستورات کے ساتھ کربلا سے چلے، تو کوفہ کی عورتیں اپنے گریبان چاک کر کے ماتم اور بین کرنے لگیں، اور کوفہ کے مرد بھی ان کے ساتھ رونے لگے یہ منظر دیکھ کر زین العابدین نے فرمایا، یہ کوفہ کے لوگ روتے ہیں مگر ان کے سوا ہمیں قتل کس نے کیا ہے؟” [احتجاج طبرسی ص ۱۵۸]
شیعہ مذہب کی معتبر و مستند کتاب پہ سیدنا زین العابدین کا فرمان یوں لکھا ہے۔
“کیا تم ہم پر روتے ہو، اور نوحہ کرتے ہو، تو پھر ہمیں تمہارے علاوہ اور کس نے قتل کیا ہے؟”
[ناسخ سلام التواریخ ج ۶ ص ۲۴۳]
شیعوں کا وہ عالم جسے خاتمۃ المحدثین اور خاتم المجتہدین کہا جاتا ہے، یعنی ملا باقر مجلسی وہ اپنی کتاب جلاء العیون میں سیدنا زین العابدین کا ایک خطبہ جو انہوں نے کوفیوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا تھا، نقل کرتا ہے!
“اے کوفیو! میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں، تم جانتے ہو کہ میرے پدر بزرگوار کو تم نے خطوط لکھے، اور ان کو فریب دیا، اور ان سے عہد و پیمان کیا، اور ان سے بیعت کی، آخرکار تم نے ان سے جنگ کی، دشمن کو ان پر مسلط کیا، پس لعنت ہو تم پر، تم نے اپنے پاؤں سے جھنم کی راہ اختیار کی۔”
روافض کے خاتمۃ المحدثین اور خاتم المجتہدین ملا باقر مجلسی کا اعترافِ جرم
“لوگ ہمیں غدار اور قاتلینِ حسین کہتے ہیں آج میں یہ کہتا ہوں، ہاں! رافضی شیعوں نے ہی اہل بیت سے غداری کی ہے اور ان کو شہید کیا پر قسم لے لو وہ ہم نہیں تھے بلکہ ہمارے باپ دادا تھے ہم تو ماتم کرکے ان کا کفارہ ادا کررہے ہیں”[بحار الانوار جلد نمبر ۵۵ صفحہ نمبر ۳۴]
احتجاج طبرسی کی ایک اور عبارت پڑھیے، اور قاتلانِ حسین کو پہچانئے!
چوتھے مزعومہ معصوم امام زین العابدین کوفیوں سے خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں!
“اے لوگو..! میں تم کو قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو، کہ تم نے میرے والد کو خط لکھے، اور ان کو فریب دیا، ان کو بیعت کا پختہ عھد و پیمان دیا، پھر تم نے ان سے لڑائی کی، اور رُسوا کیا، ہلاکت ہو تمہارے لئے، تم کس آنکھ سے آنحضرت صلی الله علیه وسلم کو دیکھو گے؟ جب وہ فرمائیں گے، تم نے میری اولاد کو قتل کیا، اور میری بے حُرمتی کی، تم میری امت میں سے نہیں ہو، پھر ہجوم میں سے رونے کی آواز بلند ہوئی، اور وہ ایک دوسرے کو بد دعا دینے لگے، اور کہنے لگے، تم برباد ہوگئے!”[احتجاج طبرسی ص ۱۵۹]
یہ حوالہ تو چیخ چیخ کے کوفیوں کا اعتراف جرم بھی بتا رہا ہے اور وہ مان رہے ہیں، کہ سیدنا حسین رضی الله عنه کو انہوں نے ہی قتل کیا!
رافضی مجتہد علی محمد ہادی بھی اپنی گواہی دیتا ہے!
“لیس فیهم شامی ولا حجازی بل جمیعهم من اهل الکوفة۔” [خلاصة المصائب. ص ۲۰۱]
حسین کے قاتلوں میں کوئی بھی شامی یا حجازی نہیں تھا بلکہ سب کے سب کوفی تھے۔
قافلۂ حسینی میں شریکۃ الحسین بھی موجود ہیں، میری مراد رسول ﷺ کی نواسی اور سیدہ فاطمۃ الزھراء کی لخت جگر سیدنا حسین کی بہن سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہا ہیں!
آپ کوفہ میں داخلہ کے وقت کوفیوں کو آہ و بکا کرتے دیکھتی ہیں، تو انہیں خطاب کر کے یوں ارشاد فرماتی ہیں!
جسے ملا باقر مجلسی نے جلاء العیون کے صفحہ ۵۰۳ پہ درج کیا ہے۔
“امابعد؛ اے اہل کوفہ! اے اہل غدر و مکر وحیلہ!
تم ہم پر گریہ و نالہ کرتے ہو، اور خود تم نے ہمیں قتل کیا ہے، ابھی تمہارے ظلم سے ہمارا رونا بند نہیں ہوا! اور تمہارے ستم سے ہماری فریاد و نالہ ساکن نہیں ہوا، تم نے اپنے لیے آخرت میں توشہ و ذخیرہ بہت خراب بھیجا ہے، اور اپنے آپ کو ابد الآباد جہنم کا سزاوار بنایا ہے، تم ہم پر گریہ و نالہ کرتے ہو، حالانکہ خود تم ہی نے ہمیں قتل کیا ہے، تمہارے یہ ہاتھ کاٹے جائیں!
اے اھل کوفہ!
تم پر ہلاکت ہو، تم نے جگر گوشۂ رسول کو قتل کیا، اور پردہ دار اھل بیت کو بے پردہ کیا، کس قدر فرزندان رسول کی تم نے خونریزی کی، اور حرمت کو ضائع کیا۔
سیدنا حسین ؓ کی بیٹی سیدتنا فاطمہ بنت حسین کوفیوں کو ان الفاظ میں لعنت کرتی ہیں!
“امابعد: اے اہل کوفہ !
اے اہل مکر وفریب ! تم نے ہمیں جھٹلایا، اور ہمیں کافر سمجھا، ہمارے قتل کو حلال اور ہمارے مال کو غنیمت جانا، جیساکہ ہم ترکوں یا کابل کی نسل سے تھے، جیسا کہ تم نے کل ہمارے جد (علی) کو قتل کیا تھا، تمہاری تلواروں سے ہمارا خون ٹپک رہا ہے، سابقہ کینہ کی وجہ سے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں، دل خوش ہوئے، تم نے خدا کے مقابلہ میں جرات کی، اور مکر کیا، اور اللہ اس مکر کی خوب سزا دینے والا ہے۔
ایک اور شخصیت شیعہ کے پانچویں مزعومہ معصوم امام محمد باقر کی گواہی بھی سُن لیجیے، یہ بھی اس قافلہ میں شریک تھے لیکن ان کی عمر اس وقت چار پانچ سال کی تھی، اور جوانی میں اپنے والد سیدنا زین العابدین سے سارے واقعات سُنے ہوئے تھے۔
ملا باقر مجلسی کی کتاب جلاء العیون صفحہ ۳۲۶ پر امام باقر کا بیان ہے۔
“جب امیر المؤمنین (سیدنا علی) سے بیعت کی، پھر بیعت شکستہ کی، اور ان پر شمشیر کھینچی، اور امیر المؤمنین ہمیشہ ان سے بمقام محاربہ و مجادلہ تھے، اور ان سے آزار مشقت پاتے تھے، یہاں تک کہ ان کو شہید کیا، اور ان کے فرزند امام حسن سے بیعت کی، اور بیعت کے بعد ان سے غدر اور مکر کیا، اور چاہا کہ ان کو دشمن کو دے دیں، اہل عراق سامنے آئے، اور خنجر ان کے پہلو پہ لگایا، اور خیمہ ان کا لوٹ لیا، یہاں تک کہ ان کی کنیز کے پاؤں سے پازیب اتارلی، اور ان کو مضطرب و پریشان کیا، حتیٰ کہ انہوں نے معاویہ سے صلح کرلی، اور اپنے اھل بیت کے خون کی حفاظت کی، اور ان کے اہل بیت کم تھے، پس ہزار مرد عراقی نے امام حسین کی بیعت کی، اور جنہوں نے بیعت کی تھی، خود انہوں نے شمشیر امام حسین پر چلائی، اور ہنوز امام حسین کی بیعت ان کی گردنوں میں تھی، کہ انہوں نے امام کو شہید کردیا۔”
سیدنا حسین کی دوسری بہن سیدتنا ام کلثوم بنت علی ؓ کی گواہی!
“اے کوفیو! تمہارا برا ہو، تم نے حسین کو دھوکہ دیا، اور تم نے حسین کو قتل کیا، اس کا مال لوٹا، خواتین کو قیدی بنایا، اور اب تم روتے ہو، تم برباد ہوجاؤ، کیا تم کو علم ہے کہ تم نے کسے قتل کیا؟ تم نے کس کا خون بہایا؟ گناہ کا کتنا بوجھ اپنی پیٹھوں پر لادا؟ اور کس کا مال لوٹا؟ تم نے آنحضرت کے بہترین افراد کو قتل کیا، تمہارے دل سے رحم اٹھ گیا، کان کھول کر سُن لو!
الله تعالی کا لشکر ہی کامیاب ہے، اور شیطان کا گروہ ہمیشہ نقصان میں رہے گا۔”[ناسخ التواریخ، صفحہ ۳۰۱]
شیخ اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب
یہی سچ ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ