سوال (2679)
ایک چلتے ہوئے کاروبار میں دوسری پارٹی بطور شراکت اپنا پیسہ لگاتی ہے، فریقین کے درمیان نفعہ اور نقصان دونوں آپشن مقرر ہوتے ہیں، جبکہ نفعے میں پرسنٹیج فکس کیا جاتا ہے، مثلاً : ڈیڑھ فیصد، یعنی اگر دوسری پارٹی نے دس لاکھ روپے لگائے ہیں تو اسے ہر ماہ پندرہ ہزار ملتے ہیں، اور ساتھ نقصان کی صورت میں یہ فیصد کم ہو کر ایک فیصد یا صفر یا پھر اصل رقم کے نقصان تک بھی جا سکتا ہے۔ اب کئی مہینوں سے پہلی پارٹی دوسری کو مسلسل ڈیڑھ فیصد کے حساب سے پندرہ ہزار ماہانہ دیتی ہوئی آ رہی ہے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، کسی نے اعتراض کیا ہے کہ یہ فکس پرافٹ ہے اور سودی معاملہ ہے، اب اہل علم سے اس معاملے کے متعلق فتویٰ مطلوب ہے کہ آیا اس طرح کا معاملہ شرعاً جائز ہے یا سود کے زمرے میں آتا ہے؟
جواب
فکس پندرہ ہزار پہ معاملہ چل رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پرسنٹیج طے نہیں ہوئی ہے، بس خالی خانہ پوری کی گئی ہے، اگر پرسنٹیج طے ہوتی تو کمی بیشی ہوتی رہتی، یہ جو اس کو فکس پندرہ ہزار دیے جا رہے ہیں، یہ واقعتاً ناجائز ہے۔ یاد رکھیں کہ پرسنٹیج صرف نفعے پر طے ہوگی، اصل رقم اور اصل مال پر طے نہیں ہوگی۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
ان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ پرسنٹیج مقرر کرنے سے شراکت سود سے نکل جاتی ہے، تو بھائی شیخ محترم نے اوپر آپ کو بتایا ہے کہ کوئی شراکت سود سے تب نکلتی ہے کہ جب پرسنٹیج منافع پہ ہو اصل رقم پہ نہ ہو، لیکن اوپر جو سوال میں لکھا ہے وہاں اصل رقم پہ فیصد مقرر کی گئی ہے جو سود ہے آپ نے پرسنٹیج کو اوپر نیچے نہیں کرنا بلکہ پرسنٹیج فکس ہوتی ہے اور منافع جب خود بخود اوپر نیچے ہوتا ہے تو جو رقم ملتی ہے وہ کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے، پس ان کو کہیں کہ پرسنٹیج کو منافع پہ لگائیں تو درست ہو گا اگر اصل رقم پہ پرسنٹیج لگائی تو وہ سود ہو جائے گا یہی شیخ محترم نے اوپر مختصر بتایا ہے۔
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ