سوال (975)

خادم حسین رضوی کا عقیدہ کیسا تھا ، یہ رہنمائی کہ کیا اس کا عقیدہ درست نہیں تھا ؟

جواب

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خادم حسین رضوی مشرک ، کافر ، مرتد اور خارج عن ملة الاسلامية تھا۔ جب وہ مرا تو بعض نام نہاد علماء اہل حدیث نے اس کا جنازہ بھی پڑھا تھا ، اس پر بہت سا اختلاف پیدا ہوا ہے کہ آیا جنازہ پڑھنا صحیح ہے یا نہیں ، پھر اسی سے یہ بحث چلی ہے کہ اس کے عقائد کیسے ہیں۔اس پر میں نے الحمدللہ کافی دنوں کی محنت لگا کر اس کی لمبی اور چھوٹی ہر ویڈیوز کلپس سے اس کا عقیدہ توحید جمع کیا ہے ، جس سے میری مذکورہ بالا بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے۔ بہر حال بعض حوادث کی وجہ سے وہ مجموعہ ضائع ہو گیا ہے ۔ ان شاءاللہ دوبارہ اسے جمع کروں گا۔ یا آپ کو ان عقائد پر مطلع فرماؤں گا۔ ان شاءاللہ
بارک اللہ فیک

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

شیخنا اتنے سخت الفاظ کہنا تو شائد درست نہیں ہے کہ کافر ، مرتد اور پھر ملت اسلامیہ سے خارج میرے خیال سے مبالغہ ہے ، اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے ، یہ میرا ایک انفرادی خیال ہے ، جس کو کبھی دوسروں پہ مسلط نہیں کرتا ہوں ۔

فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ

آپ نے صحیح کہا ہے کہ یہ آپ کا انفرادی موقف ہے ، سلف صالحین کے موقف سے اسے کچھ علاقہ نہیں ہے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

شیخ اس کو ڈائریکٹ کافر، مرتد، خارج عن الملة کہنا درست معلوم نہیں ہوتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ اس کو توبہ کی توفیق مل گئی ہو ، اس کے بیانات سے اس کے عقائد جمع کیے ہیں تو اس سے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے بیانات کے مطابق اس کے یہ عقائد تھے۔ جو کہ کفریہ ہیں۔ کسی کی طرف اس طرح کفر کی نسبت کرنا تو حدیث کی روشنی میں بھی ممنوع ہے ، بہرحال احتیاط لازم ہے ، کیونکہ آپ کے پاس اس کے توبہ نہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے ، اگر ہے تو پھر شاید کہنے کی کچھ گنجائش نکل آئے۔
واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث اسداللہ بھمبھوی حفظہ اللہ

توبہ نہ کرنے کی دلیل ہی کفر پر دلالت کرتا ہے کیونکہ ان کے عقائد کفریہ اور سلف و صالحین کے بالکل بھی برعکس رہے ہیں ، کھل عام وہ شرک و بدعات کی دعوت عام کر رہا تھا اور اہلحدیثوں سے اتنی نفرت کہ ان کی اذان سن کر کہتا یہ اہل خبیثوں کی اذان ہے ۔ استغفر اللہ ، اگر اس گمان پر اس کو مسلمان ثابت کریں گے کہ ان کی توبہ کی کوئی دلیل نہیں ہے تو پھر کفار بھی مسلمان کہلائے جائیں گے۔

فضیلۃ الباحث عبدالسلام جمالی حفظہ اللہ

جو کہا جا سکتا ہے وہ بھی زیادہ سے زیادہ ہے۔بھائی صاحب اللہ نے ہمیں ظاہر کا مکلف بنایا ہے ، ہم باطن پر حکم نہیں لگا سکتے ہیں اور نہ ہی لگا رہیں ہیں۔ میں نے اسے جہنمی نہیں کہا ہے اور نہ مخلد فی النار کہا ہے اس کا تعلق اللہ کے ساتھ یہ افعال رب میں سے ہے۔ میں نے اسے کافر و مرتد اور خارج عن الملہ کہا ہے جو اس کی واضح صورت پر حکم ہے۔
اور یہ شبہ (جسے فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے بھی اس کی وفات پر پر پیدا کیا ) کہ شاید اسے توبہ کی توفیق مل گئی ہو ، اتنی خطرناک عبادت ہے کہ پورے اسلام کی عمارت اس سے منہدم ہو جاتی ہے مقاصد شریعت کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔
اس شبہے کی بنیاد پر کوئی کافر کافر نہیں رہتا اور کوئی مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔ آپ جس جس کا جنازہ پڑھتے ہیں اور رحم کی دعا کرتے ہیں آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ ان کی موت اسلام پر ہوئی؟!! اور جن جن کو آپ کافر سمجھتے ہیں قادیانی ہوں یا ہندو ، یہودی و نصرانی اور ملحدین کیا دلیل ہے کہ وہ کفر پر ہی مرے ہوں امکان موجود ہے کہ اسلام پر موت آئی ہو۔سبحان اللہ عما یصفون

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

من لم يكفرالمشركين او شك في كفرهم فهو…..

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

من لم يكفر الكافر أو شك في كفرهم أو توقف أو صح مذهبهم فهو كافر.لا شك.
اس میں وہ مشرکین مرتدین داخل ہیں جو اصل توحید میں شرک کرتے ہیں۔ یعنی غیر اللہ سے دعا کرتے ہیں ان کے لیے ذبح کرتے ہیں ان کے خضوع و خشوع اختیار کرتے ہیں اور ان سے امید لگاتے ہیں ان سے خوف کھاتے ہیں وغیرہ۔ ان کی تکفیر پر امت کا اجماع ہے ۔
امام المجدد محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے اپنے بھائی کی تکفیر کی تھی ، اس لیے کہ انھوں نے کہا کہ امام کے باقی سب عقائد درست ہیں لیکن وہ مشرکین (مرتدین) کی تکفیر میں توقف کرنے والے کو بھی کافر کہتے ہیں اس لیے میں ان سے الگ ہوتا ہوں۔
(بعد میں انھوں نے توبہ کی اور بھائی کے ساتھ مل کر دعوت کا خوب کام کیا)
شیخ نے اسی وقت میں تکفیر معین پر رسالہ لکھا تھا
عنوان المجد فی تاریخ نجد والا لکھتا ہے۔
کہ ایک دیہات والوں کو شیخ نے دعوت دی تو وہ قائل ہوئے بعد میں مشرکین کی تکفیر کرنے کی وجہ سے شیخ کے مذھب سے پھر گئے، تو شیخ نے حکم دیا بستی پر شب خون مارو۔آگے کیا ہوا عنوان میں دیکھئے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ