محرم الحرام کے وضعی قصے کہانیوں میں کئی حقیقی اولولعزم کردار فسانہ بن کر رہ گئے ہیں، ان ہی میں سے ایک سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی دختر سیدہ سکینہ بنت الحسین علیہا الرحمۃ  ہیں، جن کو کربلا کے وضعی قصوں کے تحت بچپن میں ہی شہید کروا دیا گیا، جبکہ حقیقت میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ  کی ان جلیل القدر بیٹی کا تاریخ میں ایک خاص مقام ہے۔ یہ چند سطریں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ  کی انہیں عظیم المرتبت بیٹی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ضبط تحریر میں لائی جارہی ہیں۔

سیدنا حسینؓ کثیر الازدواج تھے اور آپؓ نے متعدد نکاح کئے۔ ان میں سے ایک نکاح آپ نے بنو کلب کی خاتون رباب بنت امراؤلقیس سے کیا۔ یہ رباب ؒ سیدنا حسین ؓ کی سب سے محبوب بیویوں میں سے تھیں اور ان کی مدحت میں تاریخ کتب و ادب میں حسینؓ کے چند اشعار بھی ملتے ہیں۔ سیدہ سکینہؒ انہی رباب ؒ کے بطن سے تھیں۔ علم و فضل، شعر و ادب، بر جستہ گوئی، حاضر جوابی اور حسن و جمال میں اپنی نظیر آپ تھیں۔ اپنے زمانہ کی بڑی بزلہ سنج اور طرحدار خاتون تھیں۔ ان کے بالوں کا فیشن اس دور کی خواتین میں بڑا پسندید ہ ہونے کے سبب ’’طرہء سکینہ‘‘ مشہور ہوگیا تھا۔

الغرض اپنے زمانہ کی ممتاز خواتین بنی ہاشم میں سے تھیں۔ رشتہ میں یہ  یزیدؒ بن معاویہ کی قریبی عزیزہ یعنی ان کی ایک خالہ کی بیٹی تھیں کیونکہ سکینہ کی والدہ رباب اور یزید بن معاویہ کی والدہ میسونؒ نیز سکینہ کے دوسرے محبوب شوہر مصعب بن زبیر ؒ کی والدہ اور سیدنا عثمان ؓ بن عفان کی زوجہ محترمہ سیدہ نائلہؒ، یہ سب خواتین اور سیدنا علیؓ بن ابی طالب اور سیدنا حسنؓ بن علیؓ کی ایک ایک زوجہ تین حقیقی بھائیوں علیم و زبیر و عدی پسران جناب بن ہیکل کلبی کی بیٹیاں تھیں۔ سیدہ سکینہؒ اپنے والد حسین بن علیؓ کی زندگی میں ہی نہ صرف سن بلوغ کو پہنچ گئی تھیں، بلکہ شادی بھی انکی اپنے تایا زاد عبداللہؒ بن حسنؓ سے ہوچکی تھی۔(کتاب نسب قریش، صفحہ ۵۹)

مورخین نے ان کے متعدد نکاحوں کا تذکرہ کیا ہے جو ان کے شوہروں کے یکے بعد دیگرے مرجانے سے ہوتے رہے۔ پہلا نکاح تو جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے اپنے سگے تایا زاد عبداللہ بن حسن سے ہوا۔

ان کے انتقال کے بعد دوسرا نکاح مدینہ میں مصعب بن زبیرؒ سے واقعہ کربلا کے بعد ہوا۔ یہ مصعب بن زبیر ، عبداللہ بن زبیرؓ کے بھائی تھے اور سیدنا علیؓ کی وفات کے تیس اکتیس برس بعد یعنی ؁۷۱ ہجری میں جب عبداللہ بن زیبرؓ اور امیر عبدالملک بن مروانؒ کے مابین خلافت کی چپقلش جاری تھی، اپنے بھائی کی جانب سے عراق کے عامل تھے۔امیر عبدالملک بن مروانؒ سے قبل خلافت ان کی گہری دوستی اور آپسی محبت تھی۔ جیسا کہ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ جلد ۸ صفحہ ۳۱۶ میں تصریح کی ہے کہ :

و قد کان عبدالملک یحب مصعباً حباً شدیداً و کان خلیلہ لہ قبل الخلافۃ یعنی عبدالملک کو مصعب سے بہت محبت تھی اور خلافت سے پہلے دونوں آپس میں دوست تھے۔

سیدہ سکینہ ؒ کی طرح مصعب بھی صاحب جمال اور حسین جوان تھے۔۔ مصعب کے قتل ہونے پر سکینہ نے اہل کوفہ کو مخاطب کرکے کہا تھا:

’’اے کوفہ کے ناہنجار اور بدبخت لوگو! تم نے پہلے میرے دادا کو قتل کیا، پھر میرے سسر اور تایا (حسن بن علیؓ) سے بے وفائی کی، اس کے بعد تم نے میرے شوہر عبداللہ بن حسنؒ اور میرے والد حسین بن علیؓ کو دھوکے سے بلا کر شہید کیا اور اب تم نے میرے محبوب شوہر کو بھی قتل کردیا۔ اللہ کرے تم قیامت تک  رسوائی اور ماتم میں مبتلا رہو۔‘‘

مصعب بن زبیرؒ کے مقتول ہوجانے کے کچھ عرصہ بعد سیدہ سکینہ ؒ نے اموی و مروانی خاندان میں مروانؓ بن الحکم کے پوتے الاصبغ بن عبدالعزیز بن مروان سے نکاح کیا جو کہ امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز ؒ کے بھائی تھے۔ ان الاصبغ کی دوسری زوجہ  یزید بن معاویہ کی بیٹی ام یزید ؒ تھیں، یعنی گویا سکینہ ؒ اور ام یزید آپس میں سوکنیں تھیں اور الاصبغ بن عبدالعزیز بن مروان ، یزید بن معاویہ اور حسین بن علی کے مشترکہ داماد تھے۔ (کتاب نسب قریش ،صفحہ ۵۹، جمہرۃ الانساب صفحہ ۹۶)

کچھ عرصہ بعد الاصبغ بن عبدالعزیز نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا تو سیدہ سکینہؒ خلیفہ راشد عثمانؓ کے پوتے زید بن عمر بن عثمانؒ کی زوجیت میں آگئیں۔ یوں علی ؓ اور عثمانؓ ایک دوسرے کے سمدھی قرار پائے۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۷۹) یہ نکاح آپؒ نے ؁۹۶ ہجری میں کیا جبکہ آپ کی عمر ۵۵، ۵۶ سال تھی۔ ان زید بن عمر بن عثمان کے چچا ابان بن عثمانؒ کے نکاح میں سکینہ کی پھوپھی زاد بہن ام کلثوم بنت زینب بنت سیدہ فاطمہ تھیں۔ (نسب قریش صفحہ ۲۹)

ابن بطوطہ نے اپنے سیاحت نامہ میں لکھا ہے کہ سکینہ کا مزار دمشق میں مرکز بازار کے ساتھ ہی ہے۔ ان سارے تاریخی حقائق کے باوجود سیدہ سکینہ ؒ کی عمر تین یا پانچ برس بتاکر روایتیں وضع کی جاتی ہیں کہ دمشق کے قید خانے میں سیدنا حسینؓ کی اس چہیتی کم سن دختر نے طرح طرح کی تکالیف سے تڑپ تڑپ کر جان دی تھی، تو کبھی کہا جاتا ہے کہ قتل حسینؓ کے بعد رات میں سکینہؒ کو خیمہ میں موجود نہ پاکر تمام بیٹیاں چلا اٹھیں:

خیمہ میں شور اٹھا کہ سکینہ بھی کھو گئیں
وہ جاکے اپنے باپ کے لاشہ پہ سوگئیں

حالانکہ یہ ساری روایتیں وضعی ہیں جنکا اقرار خود شیعہ مولف ’’مجاہد اعظم‘‘ شاکر حسین نقوی اپنی کتاب کے صفحہ ۲۹۱ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس سے بھی زیادہ مشہور مگر سراسر کذب و افترا وہ روایت ہے جس میں درد انگیز پیرایہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ جناب سکینہ نے زندان شام میں رحلت کی حالانکہ تمام مورخین و علمائے انساب کا اتفاق ہے کہ آپ عرصہ دراز تک زندہ رہیں اور واقعہ کربلا سے ۵۷ برس کے بعد ؁۱۱۷ ہجری میں وفات پائی۔ آپ کا عقد واقعہ کربلا سے پہلے عبداللہ بن حسن بن علی بن ابی طالب کے ساتھ ہو چکا تھا۔ جیسا کہ ناسخ التواریخ، محسن الابرار، ارشاد شیخ مفید، بحارالانوار، اغانی، کشف الغمہ، سیر الآئمہ، عمدۃ الطالب، اعلام الوریٰ، قمقام ذخار، مراۃ الجنان، اسعاف الراغبین، وفیات الاعیان، تاریخ کامل وغیرہم میں صاف درج ہے۔‘‘

مندرجہ بالا اقتباس میں خود ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک اہل تشیع عالم و مورخ سکینہ کے کمسن بچی اور واقعہ کربلا میں مقتول ہونے کے اہل تشیع و اہل سنت کی کتابوں کے حوالہ سے وضعی قصہ قرار دے رہے ہیں۔ پھر بھی ہمارے مرثیہ خواں کہتے رہے:

پھر بیچ میں بٹھا کر سکینہ کو ننگے سر
اور بے پدر کی گود میں رکھا سر پدر

پھر ماتم حسین کیا سب نے یکدگر
تربت سے نکلے بال نبیﷺ اپنے کھول کر

ماتم کیا حسینؓ کا اس زور و شور سے
زہراؓ نے ہاتھ چوم لئے آکے گور سے

علامہ خلیفہ بن خیاط نے اپنی کتاب “تاریخ خلیفہ” میں ۱۱۷ ہجری کے واقعات میں سیدہ سکینہؒ بنت الحسینؓ کے وفات پانے کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس سال محمد بن کعب قرظی، عائشہ بنت سعد بن ابی وقاص اور سکینہ بنت الحسین کا انتقال ہوا۔

 محمد فھد حارث