سوال (2082)
“مَنْ زَارَ قَبْرًا بِلَا مَقْبُورٍ كَأَنَّمَا عَبَدَ الصَّنَمَ” [رساله تنبيه الضالين، از مولانا اولاد حسن والد نواب صدیق حسن خان رحمه الله تعالي]
یعنی “جس نے ایسی خالی قبر کی زیارت کی جس میں کوئی میت نہیں تو گویا اس نے بت کی پوجا کی۔”
کیا یہ روایت صحیح ہے؟
جواب
ہمارے علم کے مطابق اس متن سے کوئی روایت أهل السنة کی کتب احادیث میں موجود نہیں ہے، الفاظ بھی عجمی لگ رہے ہیں، البتہ قبور حقیقی ہوں یا غیر حقیقی ان کی زیارت کسی خاص عقیدہ و نظریہ سے کرنا گمراہی اور مذموم عمل ہے، خاص قبور کی طرف رخت سفر باندھنے کا دین اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے، صرف قبرستان میں دعا اور موت و آخرت کی یاد کی زندہ رکھنے کے لیے جانا ثابت ہے۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
“ﻓﺰﻭﺭﻭا اﻟﻘﺒﻮﺭ ﻓﺈﻧﻬﺎ ﺗﺬﻛﺮ اﻟﻤﻮﺕ”
پس تم بھی قبروں کی زیارت کیاکرو کیونکہ وہ تمھیں موت کی یاد دلاتی ہیں
[صحیح مسلم ، كتاب الجنائز : 976]
امام ابن حبان نے کس قدر خوبصورت الفاظ میں زیارت قبور کا مقصد بیان فرمایا ہے
فرمایا
“ﺫﻛﺮ اﻷﻣﺮ ﺑﺰﻳﺎﺭﺓ اﻟﻘﺒﻮﺭ ﺇﺫ ﺯﻳﺎﺭﺗﻬﺎ ﺗﺬﻛﺮ اﻟﻤﻮﺕ”
“زیارت قبور کی اجازت وامر تب ہے جب مقصد ونیت موت کو یاد کرنا اور رکھنا ہو”
[صحیح ابن حبان : 7/ 440 ،3169]
سلف صالحین اس پر عمل بھی کرتے تھے۔
خواتین بھی اپنے قرباء کی قبر پر دعا کے لیے کبھی جا سکتی ہیں، مگر کثرت سے جانا اور عقیدہ کی خرابی کے ساتھ جانا یہ لعنت کا موجب اور مردود و مذموم ہے۔
والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ