سوال (5659)
لاو ابو بکر کا قرآن و سنت سے ثبوت
اور اہل تشیع کا رد کے علی رضی اللہ عنہ ہی خلافت کے حق دار تھے؟
جواب
پیارے بھائی آپ کے سوال واضح نہیں جو مجھے سمجھ آئی وہ جواب دے دیتا ہوں۔
ابو بکر کے خلیفہ ہونے کے تو بہت سے دلائل قرآن و سنت میں ملتے ہیں کچھ ذکر کر دیتا ہوں۔
عن عائشة قالت قال لي رسول اﷲ! في مرضه: اُدعي لي أبا بکر أباک وأخاک حتی أکتب کتابًا فإنی أخاف أن یتمنّٰی متمنّ ویقول قائل: أنا ویأبی اﷲ والمؤمنون إلا أبابکر (صحیح مسلم: رقم ۲۳۸۷)
’’اپنے باپ ابوبکرؓ اور بھائی عبدالرحمنؓ کوبلا کہ میں خلافت کا فیصلہ لکھ دوں۔ ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کوئی کہنے لگے کہ میں خلافت کا حق دار ہوں حالانکہ اللہ کو اور سب مؤمنوں کو ابوبکرؓ کے سوا کوئی بھی منظور نہ ہوگا۔‘‘
دوسری دلیل:
فقال ” مروا أبا بكر فليصل بالناس” فقيل له إن أبا بكر رجل أسيف، إذا قام في مقامك لم يستطع أن يصلي بالناس، وأعاد فأعادوا له، فأعاد الثالثة فقال ” إنكن صواحب يوسف، مروا أبا بكر فليصل بالناس”.
رسول اللہ ﷺ نے ابو بکر کو اپنی جگہ امامت پہ کھڑا کرنے کا کہا تو عائشہ ؓ نے درخواست کی کہ بڑے نرم دل ہیں۔ اگر وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو نماز پڑھانا ان کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ آپ نے پھر وہی حکم فرمایا، اور آپ کے سامنے پھر وہی بات دہرا دی گئی۔ تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا کہ تم تو بالکل یوسف کی ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو تم ابو بکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔
پس نماز امیر ہی پڑھاتا ہے یا جو اسکا نائب ہوتا ہے۔
اسی طرح تیسری دلیل سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو خلیفوں کے لیے بیعت لی جائے تو ان میں سے دوسرے کو قتل کر دو۔“ [مسلم: 1853]
یعنی جو خلیفہ امت نے پہلے چن لیا یہ اسکے خلیفہ ہونے کی بھی دلیل ہو گئی کیونکہ اگر پہلا چنا گیا خلیفہ نہ ہوتا تو دوسرے کو قتل کرنے کا حکم کیوں ہوتا۔
جہاں تک اھل تشیع کے دعوی کی رد کی بات کی گئی ہے کہ علی ہی پہلے خلیفہ تھے تو اس پہ ان کے دعوی کی دلیل کا پتا چلے گا تو ہی رد ہو سکتا ہے ویسے انکی جو دو بڑی دلیلیں ہماری کتابوں سے پیش کی جاتی ہیں ان میں ایک حدیث قرطاس ہے دوسری غدیر خم والے خطبے میں من کنت مولاہ والی روایت ہے۔
جہاں تک حدیث قرطاس کا تعلق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کچھ لکھوانا چاہتے تھے مگر عمر ؓ نے انکو روک دیا کہ ہمارے لئے قرآن ہی کافی ہے تو یہ اھل تشیعہ کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ اس میں یہ اشارہ بالکل نہیں ملتا کہ کیا لکھوانا چاہتے تھے اس میں فرض کر لیتے ہیں کہ وہ خلافت کا ہی لکھوانا چاہتے تھے تو پھر وہ علیؓ کی نہیں بلکہ ابو بکرؓ کی خلافت ہی لکھوانا چاہتے ہوں گے اسکی وجہ اوپر میری بیان کی گئی مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے واضح بتایا ہوا ہے کہ اللہ اور مومن ابو بکر کے علاوہ کسی کو خلیفہ نہیں بنانا چاہیں گے۔
اور اگر ہم یہ فرض کریں کہ اس حدیث قرطاس میں وہ علیؓ کی خلافت لکھوانا چاہتے تھے کیونکہ یہی اللہ کی وحی تھی تو پھر یہ آپ پہ بہت بڑا الزام ہو گا کہ آپ نے عمرؓ کے کہنے پہ وہ وحی کی بات بتانا ترک کر دیا اور قرآن کی آیت ہے کہ یا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتهاسکا مطلب کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے کچھ چھپایا ہے تو انہوں نے رسالت کا حق ہی ادا نہیں کیا تو یہ بہت بڑا بہتان ہے اور گستاخی ہے رسول اللہ ﷺ کی۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو تو عمرؓ نے صلح حدیبیہ پہ بھی روکا تھا مگر وہاں وہ نہیں رکے تھے پس یہاں اگر کوئی شرعی مسئلہ لازمی ہوتا تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ عمرؓ کے کہنے پہ وہ رک جاتے ہاں ابو بکرؓ کی خلافت کا وہ پہلے اعلان کر چکے تھے تو ہو سکتا ہے ابو بکر کی خلافت لکھوانا چاہے ہوں تو پھر رک گئے ہوں کہ وہ پہلے ہی بتایا جا چکا ہے۔
جہاں تک غدیر خم والی روایت کا تعلق ہے تو اسکو صحیح مان لیں پھر بھی وہ امارت کی بجائے محبت پہ دلالت کرتی ہے کیونکہ اسکے آگے الفاظ سے یہی واضح ہوتا ہے اور اوپر بیان کی گئی روایات کی روشنی میں بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
سائل: حدیث منزلت:
“انت منی بمنزلة ههارون من موسى”
اس سے علیؓ کی خلافت مراد لیتے ہیں؟
جواب: پیارے بھائی یہ حدیث متعدد طرق سے،امام نسائی نے اپنی کتاب خصائص امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب میں ذکر کی ہے،ص:۶۷ میں یہ الفاظ ہیں کہ:
لماغزا رسول الله غزوة التبوک خلف علیا بالمدینه فقالوا فیه مله وکره صحبته الذراری والنساء حتی قالوا مله وکره صحبته فقال له النبی ﷺ انما خلفتلک علی اهلی اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ غیر انه لانبی بعدی۔
یعنی نبیﷺ تبوک کی لڑائی کی طرف نکلے توعلی کو مدینہ منورہ میں پیچھے چھوڑا جس پر لوگوں نے کہا کہ نبیﷺ آپ سے تنگ ہوگئے ہیں اور آپ کو پسند نہیں کرتے،اس لئے چھوڑ کر گئے ہیں، پھر علیtپیچھے جاکرراستے میں ملے اورعرض کیا کہ آپ نے مجھے مدینہ میں بچوں اورعورتوں کے ساتھ چھوڑا ہے، جس پر مجھے لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ مجھ سے تنگ آگئے ہیں اور آپ کی صحبت کو پسند نہیں کرتےتونبی ﷺ نے فرمایا اے علی!میں نے آپ کو صرف اپنے گھر والوں کی حفاظت کیلئے چھوڑا ہے کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میری طرف ایسے ہو جیسے ہارون uموسیٰuکیلئے تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
پس اسکا مطلب یہ بالکل نہیں کہ یہاں رسول اللہ ﷺ کے بعد خلافت کی بات ہو رہی ہے بلکہ یہ موسی کی اس طرح نیابت کی بات ہو رہی ہے جس طرح ہارون نے موسی کی زندگی میں کی تھی کیونکہ ہارون موسی کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے جیسا کہ فتح الباری میں لکھا ہے۔
پس جیسے اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ کچھ محکم آیتیں ہوتی ہیں اور کچھ متشابہ ہوتی ہیں تو جو فسادی ہوتے ہیں وہ متشابہ آیات تلاش کرتے ہیں جن میں ایک سے زیادہ احتمالات ہوتے ہیں اور جو مومن ہوتے ہیں وہ محکم آیت کی پیروری کرتے اور متشابہ آیات میں جو تشریح محکم آیت کے مطابق ہوتی ہے وہی لیتے ہیں ۔ اللہ کہتا ہے والراسخون في العلم يقولون آمنا به كل من عند ربنا، یعنی جو راسخ العقیدہ ہوتے ہیں وہ متشابہ اور محکم کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ چونکہ تمام رب کی طرف سے ہی آئی ہیں پس ان میں اختلاف تو ہو نہیں سکتا پس ہمیں متشابہ کی وہ تشریح لینی ہے جو محکم کے مطابق ہو۔
پس اوپر ابو بکر کا خلیفہ بننے پہ محکم حدیث موجود ہے اور یہ علی والی روایت متشابہ ہے جس میں جو تفسیر اوپر نسائی کی ہے وہ محکم حدیث کے مطابق ہے پس اسکی یہی تشریح ہی ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
دیکھیں، سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لیں کہ یہ جو لفظ ہے “خلیفہ بلا فصل”، ہم اس کو کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ آخر ہم اہلِ تشیع، روافض، اہلِ تصوف، یا اہلِ بدعات کی اصطلاحات کو کیوں اپنی زبان پر لا رہے ہیں؟ یہ “خلیفہ بلا فصل” جو لفظ ہے، اس کی اصل کہاں سے ہے؟ یہ اصطلاح تو اہلِ روافض نے سیدنا علیؓ کے لیے استعمال کی تھی۔
اب ہم نے کیا کیا؟ ہم نے اس کے جواب میں، ایک طرح کا الزامی جواب دیتے ہوئے، کہا کہ نہیں، سیدنا ابوبکر صدیقؓ خلیفہ بلا فصل تھے۔ تو چلیں، ایک جوابی انداز میں، ایک مکالمے کی سطح پر، وقتی طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ لیکن اصولی طور پر، ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی اصطلاحات استعمال نہ کریں جن کی جڑیں اہلِ بدعات کے عقائد میں ہوں، یا جو اہلِ تشیع، اہلِ روافض کی طرف سے آئی ہوں۔ ایسی اصطلاحات کو اپنی دینی گفتگو میں شامل کرنا مناسب نہیں ہے۔ حد درجہ کوشش کریں کہ ہماری زبان سے صرف وہی تعبیرات نکلیں جن کی بنیاد قرآن، سنت اور فہمِ سلف میں ہو۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ