سوال
ایک شخص نے دوسری شادی کر لی، جس کی اطلاع جب اس کی پہلی بیوی کو ملی تو وہ ناراض ہو کر اپنے بچوں سمیت میکے چلی گئی۔ شوہر نے منت سماجت کی، لیکن وہ واپس آنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ وہ کہتی ہے کہ جب تک وہ اپنی دوسری بیوی کو طلاق نہیں دے گا، نہ وہ واپس آئے گی، نہ ہی بچوں کو اس سے ملنے دے گی۔
اس معاملے میں بچوں کے دادا دادی شدید متاثر ہیں، حتی کہ دادا کی طبیعت بیماری کے سبب نازک ہو گئی۔ باپ نے بیٹے کو کہا کہ اگر اس نے دوسری بیوی کو طلاق نہ دی تو وہ اپنے پوتے پوتیوں سے محروم رہے گا، ان سے مل نہیں پائے گا، بلکہ پریشانی میں یہاں تک کہہ دیا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں مرجاؤں اور میرا جنازہ اٹھ جائے؟ دیگر رشتے داروں نے بھی بہت طعنے دیے۔
اس دباؤ کے نتیجے میں شوہر نے تین مہینوں کے دوران اپنی دوسری بیوی کو طلاق کے تین نوٹس بھیجے۔ اب وہ کہتا ہے کہ اس کا مقصد صرف والدین اور پہلی بیوی کو وقتی طور پر مطمئن کرنا تھا، طلاق دینا اس کا ارادہ نہیں تھا۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ صرف رسمی کارروائی کے طور پر یہ نوٹس بھیجے گئے، اسکی نیت طلاق کی نہیں تھی۔
سوال یہ ہے کہ: کیا یہ صورتحال “اکراہ” کے زمرے میں آتی ہے؟ اور کیا ان نوٹسز سے طلاق واقع ہو چکی ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
انکی تینوں طلاق واقع ہوچکی ہیں، کیونکہ یہ “اکراہ” کی صورت نہیں ہے۔
فقہی اصطلاح میں اکراہ مخصوص شرائط کے ساتھ طاری کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان کو کسی فعل پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اکراہ کی صورتیں اور شرائط درج ذیل ہیں:
- جب کسی شخص کو جان سے مارنے کی صریح دھمکی دی جائے۔
- یا کسی عضو کو تلف/ضائع کرنے کی واضح دھمکی دی جائے۔
- یا کسی قریبی عزیز کی جان لینے کی حقیقی دھمکی دی جائے، وغیرہ۔
- مکرِہ (دھمکی دینے والا) اس دھمکی کے نفاذ پر قادر ہو۔
- اور مکرہ (جس پر جبر کیا جا رہا ہو) کو اس بات کا یقین/قوی گمان ہو کہ اگر اس نے بات نہ مانی تو دھمکی کے مطابق نقصان ضرور پہنچایا جائے گا۔
مذکورہ صورت میں شوہر پر جذباتی دباؤ ضرور تھا، لیکن کوئی ایسی دھمکی موجود نہیں جس بنا پر اس معاملے کو اکراہ شمار کیا جائے، فقہائے کرام کے نزدیک صرف نفسیاتی یا معاشرتی دباؤ اکراہ کے زمرے میں نہیں آتا جب تک مذکورہ صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن جائے۔
اسکے علاوہ شوہر نے خود اپنے ارادے، اختیار اور نیت سے طلاق کے نوٹس تیار کروائے اور بھیجے۔ اب اگر وہ کہتا ہے کہ اسکی نیت طلاق کی نہیں تھی، تو اس کا اعتبار صرف اس صورت میں ہوتا جب طلاق کے لیے الفاظ غیر واضح اور کنایہ ہوتے۔ لیکن یہاں اس نے صریح الفاظ کے ساتھ طلاق دی ہے، اور صریح طلاق میں نیت ضروری نہیں ہوتی، یعنی نیت کا اعتبار ہی نہیں کیا جاتا بلکہ الفاظ پر ہی فیصلہ ہوتا ہے۔
لہٰذا اگر شوہر نے تین ماہ میں وقفے وقفے سے طلاق کے تین نوٹس بھیج دیے ہیں تو انکو طلاق ہی شمار کیا جائے گا، انکی تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، اور شوہر کا بعد میں طلاق کی نیت سے انکار یا اکراہ کا دعوی باطل، غیر معتبر اور شرعا قابلِ قبول نہیں ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ