سوال (5278)
وہ حدیث جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانا پیش کیا جاتا اگر آپ کو پسند ہوتا تو کھا لیتے اگر نہ ہوتا تو نہ کھاتے مگر نقص و عیب نہیں نکالتے تھے؟
جواب
حدیث اپنے معنی مفہوم میں واضح ہے، اس میں مزید کیا وضاحت کی جائے، بس اتنا ذکر ہے کہ کھانا پیش کیا جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھا لگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھا لیتے، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس بغیر کسی نکتہ چینی کے لوٹا دیتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے پر کبھی عیب نہیں لگاتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
“مَا عَابَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ إِنِ اشْتَهَاهُ أَكَلَهُ، وَإِلَّا تَرَكَهُ” [صحيح البخاري: 3563]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا، اگر آپ کو مرغوب ہوتا تو کھاتے ورنہ چھوڑ دیتے۔
اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے “ضب” کے بارے میں کہا ہے کہ میں نہیں کھا رہا ہوں، لیکن عیب نہیں نکالا تھا، ہمارے آج کل اس معاملہ میں خطرناک رویہ ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: ایک باورچی ہے، اس کے پاس سب کچھ ہے، کوئی بھی کمی نہیں ہے، اس کے بعد بھی کھانا صحیح نہیں بناتا ہے، تو کیا کوئی بول دے کہ یہ کھانا صحیح نہیں بنا ہوا ہے، نمک یا مرچی کم ہے، تو یہ کیا نقص میں آئے گا؟
جواب: دیکھیں اگر ظاہر کا اعتبار کریں تو یہ بھی عیب میں شمار ہوگا، میں یہی سمجھتا ہوں، باقی آپ اس کو بلا کر سمجھا دیں کہ نمک یا مرچ کم یا زیادہ کردیں، عیب سے بہتر ہے کہ اس کا بلا کر سیدھی راہ دیکھائی جائے۔ حدیث کے ظاہر کا یہی تقاضا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ