خشیتِ الہی کا حسنِ اخلاق سے تعلق

بندہ جس قدر اللہ تعالی کے سامنے متواضع اور خاشع ہو اور اس سے ڈرنے والا ہو، لوگوں کے ساتھ تعامل اسی قدر نرم خو، ہنس مکھ اور با اخلاق ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ اللہ تعالی کا خوف رکھنے والے، سب سے زیادہ متقی و پرہیز گار تھے، جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں آپ سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والا، سب سے زیادہ سچا اور سب سے زیادہ نیکی کرنے والا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری : ٧٣٦٧، صحیح مسلم : ١٢١٦)
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور آپ ﷺ کے سینے سے رونے کی وجہ سے ایسے آواز آ رہی تھی جیسے کوئی چکی سی چل رہی ہو۔ (سنن ابی داود : ٩٠٤ وسنده صحیح)
لیکن اس کے باوجود آپ کا لوگوں کے ساتھ تعلق اسی قدر نرمی و خوش اخلاقی کے ساتھ تھا جیسا کہ سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
’’میرے اسلام کے بعد رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی مجھے (اپنی مجلس سے) منع نہیں کیا اور آپ ﷺ جب بھی مجھے دیکھتے تو میرے سامنے مسکرا دیتے۔‘‘ ( صحيح البخاري : ٣٠٣٥)
⇚ سیدنا معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں، میں نے نہ تو آپ سے پہلے اتنا بہترین استاد و معلم دیکھا، نہ آپ کے بعد، اللہ کی قسم! نہ تو آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مارا اور نہ ہی برا بھلا کہا۔‘‘ (صحیح مسلم : ٥٣٧)
⇚ سیدنا عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں :
’’میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘ (سنن الترمذي : ٣٦٤١ وفي سنده ضعف وله شواهد)
⇚ حافظ ابن بطال رحمہ اللہ (٤٤٩هـ) فرماتے ہیں :
لوگوں سے مسکر کر اور کشادہ چہرے سے ملنا اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں سے ہے، یہ تکبر دور کرتا اور محبت لاتا ہے۔ (شرح البخاري : ٥/ ١٩٣)
⇚ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ (٣٥٤هـ) فرماتے ہیں :
’’عقل مند پر لازم ہے کہ اختیارِخوش طبعی و ترکِ خشک روی کے ساتھ لوگوں کے دل اپنی طرف مائل کرے۔‘‘ (روضة العقلاء، ص : ٧٧)
⇚حافظ ذہبی رحمہ اللہ (٧٤٨هـ)، سیدنا جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر فرماتے ہیں :
’’یہی اسلام کا اخلاق ہے، سب سے اعلی مقام یہ ہے کہ جو رات کو (اللہ کی سامنے) بہت زیادہ رونے والا ہو وہ دن کو (لوگوں کے ساتھ) سب سے زیادہ مسکرانے والا ہو۔‘‘ (سير أعلام النبلاء : ١٠/ ١٤١)
✿. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی طرز عمل تھا جیسا کہ سماک بن حرب بیان کرتے ہیں، میں نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مجالس میں شریک ہوتے تھے؟ کہا: ہاں! بہت۔ آپ جس جگہ صبح کی نماز ادا فرماتے، سورج طلوع ہونے تک وہاں سے نہ اٹھتے، جب سورج طلوع ہو جاتا تو اٹھ کھڑے ہوتے، صحابہ دورِ جاہلیت میں کیے کاموں کے متعلق باتیں کرتے اور ہنستے تھے اور آپ (بھی ان کی باتیں سن کر) مسکراتے تھے۔ (صحیح مسلم : ٦٧٠)
⇚بلال بن سعد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا ہے کہ وہ تیر اندازی کرتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خوب ہنستے مسکراتے تھے لیکن جب رات ہو جاتی تو راهب بن جاتے۔‘‘ (یعنی دنیا چھوڑ کر پوری طرح عبادت ومناجات میں مشغول ہو جاتے۔) (مصنف ابن أبي شيبة : ٥/ ٣٠٣ وسنده صحیح)
⇚ ابو سلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں: ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام مریل اور مردہ دل نہیں تھے۔ وہ اپنی مجلسوں میں اشعار بھی پڑھا کرتے تھے اور جاہلیت کے زمانہ کے واقعات کا تذکرہ بھی کرتے لیکن جب ان سے اللہ کے دین کے خلاف کوئی بات کہی جاتی تو ان کی آنکھوں کی پتلیاں یوں گھومنے لگتے گویا کہ وہ مجنوں ہوں۔‘‘ (مصنف ابن أبي شيبة : ٧/ ١٥٨ وسنده حسن)
⇚ بکر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام بطور مزاح ایک دوسرے کی طرف خربوزے پھینکتے تھے لیکن جب حقائق (یعنی عبادت و جہاد)کا معاملہ ہوتا تو وہ حقیقی مَرد ہوتے۔‘‘ (الأدب المفرد للبخاري : ٢٦٦ وسنده صحیح)
✿۔ امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ اپنے دوست احباب اور اہل خانہ کے ساتھ خوب ہنستے مسکراتے تھے، اور رات کو اللہ کے سامنے خوب روتے، گڑگڑاتے تھے، جیسا کہ منصور بن زاذان بیان کرتے ہیں ’’ابن سیرین رحمہ اللہ کبھی اس قدر ہنستے کہ ان کی آنکھوں سے پانی آ جاتا۔‘‘ (مداراة الناس لابن أبي الدنيا : ٧٠ ورجاله ثقات)
⇚ ہشام بن حسان رحمہ اللہ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں :
’’ہم امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ کے گھر مہمان ٹھہرے ہوئے تھے، رات کو ہم ان کی (اللہ کے سامنے) رونے کی آوازیں سنتے اور دن کو (اپنے گھر والوں کے ساتھ) ہنسنے کی آوازیں سنتے۔‘‘ (حلية الأولياء لأبي نعيم : ٢/ ٢٧٢)
⇚مہدی بن میمون بیان کرتے ہیں کہ ’’ ابن سیرین رحمہ اللہ شعر پڑھ کر اتنا ہنستے کہ لوٹ پوٹ ہو جاتے، لیکن جب حدیث کی بات آتی تو (خوف وخشیت سے) ماتھے پر شکنیں پڑ جاتیں۔‘‘ (مداراة الناس لابن أبي الدنيا : ٧٢ وسنده حسن)
⇚زہیر اقطع بیان کرتے ہیں کہ ’’ابن سیرین رحمہ اللہ کے پاس جب موت کا ذکر ہوتا تو یوں ہوتے گویا ان کے جسم کا ہر عضو الگ الگ سے مردہ ہوگیا ہو۔‘‘ (اصطناع المعروف لابن أبي الدنيا : ٣٧ وسنده حسن)
⇚حجاج بن اسود بیان کرتے ہیں کہ معاویہ بن قرہ رحمہ اللہ فرماتے تھے :
’’کون مجھے ایسے بندے کے متعلق بتائے گا جو راتوں کو رونے والا اور دن کو مسکرانے والا ہو۔‘‘ (الزهد لأحمد : ١٩١٨ وسنده صحیح)
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مراد ایوب سختیانی رحمہ اللہ ہیں۔ (المجالسة للدينوري : ٣/ ١٥٣)
خلاصۂ کلام :
بہرحال حاصلِ کلام یہ ہے کہ جو بندہ اللہ تعالی سے ڈرنے والا، عبادت گزار اور نیکی و خیر والا ہو اسے چاہیے کہ خلقتِ الہی کے ساتھ اسی قدر خوش مزاج، ہنس مکھ اور اچھے اخلاق کا حامل ہو، مطلب یہ نہیں کہ وہ عبادت گزار ہے تو چہرے پر ہر وقت عبوسیت و سنجیدگی چھائی رہے۔

(حافظ محمد طاھر)

یہ بھی پڑھیں: قرآن میں امراۃ اور زوجہ کا فرق اور اشکال کا ازالہ