سوال          (88)

ہماری شادی کو تقریباً چھے سال ہو گئے ہیں اور ہماری ان بن تقریباً چلتی رہی ہے ، کبھی کھانا لیٹ بن جانا ،کپڑے ٹائم پر استری نہ ہونا،بس ماں باپ کی گالیاں دینا ،ذلیل کرنا ،اذیت دینا مارنا تین چار بار پائپ سے مارا ہے ، لیکن میں امی کے گھر گئی پھر واپس آ گئی پھر میرے گھر والے اس مسئلے میں پڑے تو میری امی کا بازو توڑ دیا ہے ، پھر بیٹھ کر بات ہوئی حالانکہ میری امی کا بازو توڑا ہوا تھا میں پھر ان کے ساتھ آ گئی اس بار یہ ہوا کہ میرا بیٹا ہے سردی ہے اسکو ٹوپی نہیں پہنائی تھی ، اسی پر ماں باپ کی گالیاں دیں اور لڑائی یہاں تک پہنچی کہ مجھ پر تیل پھینکا پھر آگ لگانے کی کوشش کی پھر ٹانگوں سے مارا ہے میرے دانت ٹوٹ گئے ۔اب میں امی کے گھر ہوں پانچ چھے بار انکی اصلاح کے لیے انکے والدیں بھائیوں کو بولا ہے لیکن والدین کہتے ہیں کہ ہم اسکے معاملے میں نہیں پڑتے یہ خود جانے اور اسکے کام جانے ۔ میں اب امی کے گھر ہوں انہوں نے میرا سارا ٹریٹمنٹ کروایا ہے ۔

میں اسلام کی رو سے جاننا چاہتی ہوں کہ اتنی اذیت تو میں برداشت نہیں کر سکتی ہوں ، حالانکہ مجھے چھ سال ہوگئے ہیں ، کیا ایسے خاوند کے ساتھ رہنا جائز ہے؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں ؟جزاکم اللہ

جواب

یہ یک طرفہ بیان ہے۔ ایسے معاملات میں دوسرے فریق کی بات بھی سننا ضروری ہے ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

  جیسا کہ شیخ محترم نے فرمایا ہے کہ دوسرے فریق کی بھی بات سننی چاہیے ، یہ بات انتہائی مناسب ہے ، البتہ فی الواقع ایسا ہے جیسے محترمہ کا بیان سوالی شکل میں آیا ہوا ہے ، اس میں یہ ہوتا ہے کہ بڑے یا رشتہ کروانے والوں کو بیٹھا دیا جائے تاکہ وہ فیصلہ کریں ، کیا لڑکی کا کوئی  وارث بھائی وغیرہ  موجود نہیں ہے ، جو اس کی طرف سے بات کر سکے ، یہ تمام باتیں سامنے رکھی جائیں ، آخری صورت پھر یہی ہے کہ پھر اگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہے اس حد تک معاملات ہیں ، پھر عورت خود فیصلہ کرلے کہ اس نے رہنا ہے یا نہیں ، اگر معاملہ اس کی برداشت سے باہر ہوجاتا ہے تو شریعت اسے خلع کی اجازت دیتی ہے ، شوقیہ نہیں ، اگر معاملہ برداشت سے باہر ہے تو اسے خلع کی اجازت ہے ، عورت ذلت اور مرنے کے لیے تو پیدا نہیں ہوئی ہے ، آخری فیصلہ یہ ہوگا ، لیکن اس عورت کو پتا ہونا چاہیے جو بلا عذر خلع لیتی ہیں ان کو منافقہ کہا گیا ہے ، یہ بالکل اس کو واضح طور پر بتایا جائے ۔

ملاحظہ : یہ سوالات علاقی سطح پر تحریری صورت میں علماء کے پاس لائے جائیں ، اور علماء کے ساتھ بیٹھ کر جواب لیے جائیں ، واٹس ایپ  پر جو سوال آیا ہے اس کا جواب اتنا ہی بنتا ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کا نگران یا ذمیدار بنایا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

“اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ‌ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَيۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ‌ ؕ وَالّٰتِىۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَهُنَّ فَعِظُوۡهُنَّ وَاهۡجُرُوۡهُنَّ فِى الۡمَضَاجِعِ وَاضۡرِبُوۡهُنَّ‌ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَكُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَيۡهِنَّ سَبِيۡلًا‌ ؕاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيۡرًا”.[سورة النساء: 34]‏.

’’مرد عورتوں پر نگران ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔ پس نیک عورتیں فرماں بردار ہیں، غیرحاضری میں حفاظت کرنے والی ہیں، اس لیے کہ اللہ نے انھیں محفوظ رکھا اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو، سو انھیں نصیحت کرو اور بستروں میں ان سے الگ ہوجاؤ اور انھیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرماں برداری کریں تو ان پر زیادتی کاکوئی راستہ تلاش نہ کرو، بیشک اللہ ہمیشہ سے بہت بلند، بہت بڑا ہے‘‘۔

اس آیت میں مرد کو نگران بنانے کے اسباب بھی بیان کیے گئے ہیں ، ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی بچوں پر خرچ کرتے ہیں ،بیوی اپنے پیسے اپنے شوہر پر خرچ نہیں کرسکتی ہے ، لیکن اس نگران ہونے کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ مرد کو یہ اجازت دی جائے کہ بلاوجہ وحشی کی طرح بیوی کو مارتا رہے ، اسلام مناسب حد تک سمجھانے کے لیے مارنے کی بھی اجازت دیتا ہے ۔

سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :

“أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ، وَهُوَ غَائِبٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلُهُ بِشَعِيرٍ، فَسَخِطَتْهُ، فَقَالَ: وَاللهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَيْءٍ، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «لَيْسَ لَكِ عَلَيْهِ نَفَقَةٌ»، فَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ، ثُمَّ قَالَ: «تِلْكِ امْرَأَةٌ يَغْشَاهَا أَصْحَابِي، اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ، فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي»، قَالَتْ: فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَكَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، وَأَبَا جَهْمٍ خَطَبَانِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا أَبُو جَهْمٍ، فَلَا يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقِهِ، وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لَا مَالَ لَهُ، انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ» فَكَرِهْتُهُ، ثُمَّ قَالَ: انْكِحِي أُسَامَة فَنَكَحْتُهُ، فَجَعَلَ اللهُ فِيهِ خَيْرًا، وَاغْتَبَطْتُ بِهِ”. [صحيح مسلم : 1480]

“’’ابو عمرو بن حفص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں طلاق بتہ دے دی، اور وہ خود غیر حاضر تھے، ان کے وکیل نے ان کی طرف سے کچھ جَو وغیرہ بھیجے، تو وہ اس پر ناراض ہوئیں، اس نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب تمہارا خرچ اس کے ذمے نہیں۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ام شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں عدت گزاریں، پھر فرمایا: ’’اس عورت کے پاس میرے صحابہ آتے جاتے ہیں، تم ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں عدت گزار لو، وہ نابینا آدمی ہیں، تم اپنے اوڑھنے کے کپڑے بھی اتار سکتی ہو۔ تم جب عدت کی بندش سے آزاد ہو جاؤ تو مجھے بتانا۔’’ جب میں عدت سے فارغ ہوئی، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابوجہم تو اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں اتارتا، اور رہا معاویہ تو وہ انتہائی فقیر ہے، اس کے پاس کوئی مال نہیں، تم اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر لو۔‘‘ میں نے اسے ناپسند کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ’’اسامہ سے نکاح کر لو۔‘‘ تو میں نے ان سے نکاح کر لیا، اللہ نے اس میں خیر ڈال دی اور اس کی وجہ سے مجھ پر رشک کیا جانے لگا‘‘۔”

اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجھم کی کوئی نقص بیان کی ہے کہ ابوجھم کی لاٹھی ہر وقت اس کے کندھے پر رہتی ہے ، مطلب عورتوں پر سختی کرتے ہیں ، آپ اس سے شادی نہ کریں ۔

جہا ں ایک مرد حد سے زیادہ سختی کرتا ہے ، وہاں عورت کو یہ مشورہ دیا جا سکتا ہے ، کہ آپ اس سے شادی نہ کریں ، وہاں اس صحابی سے بڑھ کر ایک شخص سختی کرتا ہے ، مار رہا ہے ۔ وہ صحابی یقینا بلاوجہ نہیں مارتے تھے ، باقی سوال میں جو مارنے کی صورت بیان کی گئی ہے  یہ انسانیت نہیں ہے بلکہ وحشی پن ہے ، اسلام قطعا اجازت نہیں دیتا ہے ۔

ایسے شوہر  کےساتھ رہنے پہ عورت کو قطعا مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے جو طلاق سے پہلے مراحل بیان کیے ہیں کہ دونوں فیملیوں میں سے ایک ایک بندی بیٹھا دیں تاکہ وہ فیصلہ کریں ، اگر سمجھ نہیں آتی ہے تو ایسے رشتے کو ختم کردیں ، ایسے بندے کے ساتھ قطعا نہیں رہنا چاہیے ۔

فضیلۃ العالم مقصود احمد حفظہ اللہ