سوال           (102)

ایک خاتون کا خاوند حرام روزی کما رہا ہے ، جس سے وہ گھر کے اخراجات چلا رہا ہے ۔ بچے چھوٹے ہیں ۔ بیوی کے منع کرنے کے باوجود وہ اس کام کو چھوڑنے پر راضی نہیں ، اب اس خاتون کے لیے کیا حکم ہے ؟ کیا وہ بھی اس گناہ میں شامل ہوگی؟

جواب

خاوند حرام روزی کما رہا ہے ، تو بیوی اسے سمجھائے، نصیحت کرے، تاکہ وہ حرام کی لعنت سے بچ سکیں۔ خواتین مردوں کو بڑے بڑے اقدام پر راضی کرلیتی ہیں، ان سے حلال، بلکہ عبادات و واجبات اور ماں باپ چھڑوا لیتی ہیں، تو اس خاتون کو کوشش کرکے اپنے خاوند سے حرام چھڑوانا چاہیے ۔ اسی ضمن میں اسے کے لیے ممکن ہو تو وہ طلاق کا مطالبہ بھی کرسکتی ہے، کیونکہ حرام سے جان چھڑانے کے لیے طلاق کا مطالبہ معقول شرعی عذر ہے ۔ اگر یہ ممکن نہیں تو پھر اس خاتون کو چاہیے کہ وہ خود اس حرام سے جس قدر بچ سکتی ہے، بچے اور اپنی اولاد کو بچائے اور جہاں مجبوری ہے، وہاں اس حرام کو بقدر ضرورت و حاجت استعمال کرلے، جس کا گناہ امید ہے اس پر نہیں، بلکہ حرام کمانے والے اس کے ضدی خاوند پر ہوگا، جو حرام چھوڑنے پر راضی نہیں ہے۔ واللہ اعلم

ارشاد باری تعالی ہے:

 “فَمَنِ اضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِ‌ؕ”. [سورة البقرة : 173]

’’پھر جو مجبور کردیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں‘‘۔

اور یہ سب اس صورت میں ہے کہ جب ٹوٹل مال حرام ہو، اگر حلال و حرام دونوں طرح کے ذرائع آمدن ہوں، تو ایسے شخص کی کمائی استعمال کرنے میں وسعت اور گنجائش ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی عورت کی دعوت، جو اس نے خیبر کے موقع پر کی تھی، قبول فرمائی۔اور اس کے گھر میں تشریف لے گئے اور کھانا تناول فرمایا۔اگرچہ اس کھانے میں اس یہودی عورت نے زہر ملا دیا۔وہ لوگ سود خور بھی تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا ذریعہ آمدنی باغبانی بھی تھا۔  [شرح السنة للبغوي:8/14]

اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دعوت قبول فرمائی ۔ حالانکہ قرآنِ کریم میں ان کے بارے میں آتا ہے: “اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ” کہ وہ یہودی حرام بھی کھاتے تھے۔ [سورۃ المائدہ: 42]

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ