سوال (4085)
کیا حضرت عائشہ کا حضور پاک ﷺ سے اعتکاف کی اجازت سے عورت کا مسجد میں اعتکاف ثابت ہوتا ہے؟
سوال: ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے مسجد میں اعتکاف کی اجازت مانگی تھی.تو اس وجہ سے اب یہ کہا جاتا ہے کہ اعتکاف گھر پر ہوتا ہی نہیں۔ تو ﺫرا تفصیل کے ساتھ احادیث کا حوالہ بھی دے دیجیے،جس میں عورتیں گھر پر اعتکاف کریں۔
مریم کراچی
الجواب بعون الملک الوھاب
”حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَکِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ فَکُنْتُ أَضْرِبُ لَهُ خِبَائً فَيُصَلِّي الصُّبْحَ ثُمَّ يَدْخُلُهُ فَاسْتَأْذَنَتْ حَفْصَةُ عَائِشَةَ أَنْ تَضْرِبَ خِبَائً فَأَذِنَتْ لَهَا فَضَرَبَتْ خِبَائً فَلَمَّا رَأَتْهُ زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ ضَرَبَتْ خِبَائً آخَرَ فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَی الْأَخْبِيَةَ فَقَالَ مَا هَذَا فَأُخْبِرَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَالْبِرَّ تُرَوْنَ بِهِنَّ فَتَرَکَ الِاعْتِکَافَ ذَلِکَ الشَّهْرَ ثُمَّ اعْتَکَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ،،
ترجمہ: مشہور تابعیہ حضرت عمرہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، میں آپ کے لیے ایک خیمہ نصب کر دیتی تھی، آپ فجر کی نماز پڑھ کر اس میں داخل ہوتے، پھر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خیمہ نصب کرنے کی اجازت مانگی، انہوں نے اجازت دیدی تو حفصہ نے بھی ایک خیمہ نصب کیا، جب زینت بن جحش نے دیکھا تو انہوں نے بھی ایک دوسرا خیمہ نصب کیا۔ جب صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چند خیمے دیکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خیمے کیسے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ بیان کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم ان میں نیکی سمجھتے ہو، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینہ میں اعتکاف چھوڑ دیا، پھر شوال کے ایک عشرہ میں اعتکاف کیا۔
یہ حدیث جس کو دلیل کے طور پر پیش کر کے عورت کے گھر کے اعتکاف کا انکار کیا جاتا ہے۔ تو اس بارے میں عرض یہ ہے کہ اس روایت میں یہ کہیں نہیں کہ ازواج مطہرہ نے اعتکاف میں بیٹھنے کی غرض سے خیمہ نصب کیا تھا بلکہ اس میں تو یہ کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کی خاطر ہر زوجہ آپ کے لیے خیمہ لگارہی تھیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازدواجی رقابت کا حصہ قرار دیتے ہوئے ناپسند فرمایا۔
بالفرض تسلیم کربھی لیا جائے کہ حضرت عائشہ نے اعتکاف میں بیٹھنے کی اجازت مانگی تھی اور آپ ﷺ نے اجازت دے دی تھی لیکن جب صبح ہوئی تو دیگر ازواج مطہرات کے خیمے دیکھ کر آپ ﷺ نے اس کے مفاسد کو قوی جانا اور اس پر ناراضی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ کیا یہ اپنے لیے اس کو نیکی سمجھ بیٹھی ہیں؟جو اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا پسندیدہ نہیں۔
نیز اس کے علاوہ کوئی بھی صریح حدیث ایسی نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ازواج مطہرات یا دیگر صحابیات نے اعتکاف مسجدمیں کیا ہو۔
اس حدیث کے بارے میں عمدۃ القاری میں مذکور ہے:
”وقال: ابراهيم بن عبلة فی قوله (آلبر ترون) دلالة علی انه لیس لهن الاعتکاف فی المسجد اذ مفهومه لیس ببرلهن وقال بعضهم ولیس ما قاله بواضح قلت بلی هو واضح لانه اذا لم یکن برالهن یکون فعله غیر برای غیر الطاعة وارتکاب غیر طاعة حرام ویلزم من ذالک عدم الجواز۔
( عمدۃ القاری(۱۱/۱۴۸) یعنی ابراہیم بن عبلہ نے اس قول کو (کیا وہ اس کو اپنے لیے نیکی سمجھ بیٹھی ہیں) مسجد میں عورتوں کے اعتکاف کے عدم جواز پر محمول کیا۔
غور طلب بات ہے کہ اگر عورت کے لیے بھی اعتکاف مسجد میں کرنا ضروری ہوتا تو اجازت کے باوجود حضورﷺ نے اپنے اہل بیت کو مسجد میں اعتکاف کیوں نہ کرنے دیا؟
اور خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کاحکم کیوں دیا؟
اور اس نیکی پر ان کو کس نے اُبھارا ہے، یا کیا یہ اپنے لیے اس کو نیکی سمجھ بیٹھی ہے؟ کے الفاظ سے اپنے اہل بیت کو عتاب کیوں فرمایا؟
اور اپنے اعتکاف کو بھی آخر ختم کیوں کردیا؟
نیز اس حدیث کے الفاظ ہی اس پر گواہ ہے ،غور کیجیے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور میں ان کے لیے خیمہ نصب کرتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنھا نے اپنے اعتکاف کی اجات مانگی تو مل گئی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پہلی بار تھا کہ حضرت عائشہ نے مسجد نبوی میں اپنے لیے خیمہ نصب کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ ورنہ آپ یہ فرماتیں کہ آپ ﷺ اور میں آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، میں آپ ﷺ اور اپنے لیے مسجد میں خیمے نصب کرتی تھیں۔
بعض احادیث میں یہ مذکور ہے کہ ازواج مطہرات آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی اعتکاف کیا.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ إِذَا أَخْبِيَةٌ خِبَاءُ عَائِشَةَ، وَخِبَاءُ حَفْصَةَ، وَخِبَاءُ زَيْنَبَ، فَقَالَ: آلْبِرَّ تَقُولُونَ بِهِنَّ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمْ يَعْتَكِفْ حَتَّى اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ.
نبی کریم ﷺ نے اعتکاف کا ارادہ کیا۔ جب آپ ﷺ اس جگہ تشریف لائے ( یعنی مسجد میں ) جہاں آپ ﷺ نے اعتکاف کا ارادہ کیا تھا۔ تو وہاں کئی خیمے موجود تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی، حفصہ رضی اللہ عنہا کا بھی اور زینب رضی اللہ عنہا کا بھی، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ انہوں نے ثواب کی نیت سے ایسا کیا ہے۔ پھر آپ ﷺ واپس تشریف لے گئے اور اعتکاف نہیں کیا۔ بلکہ شوال کے عشرہ میں اعتکاف کیا۔ [صحيح البخاري : 2034]
اس حدیث اور اس پوسٹ کا جواب درکار ہے؟
جواب
01) اعتکاف کی تعریف: ”کسی مخصوص شخص کا خاص صفت کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے۔”(فتاوٰی عالمگیری : 1/221)
امام بریلویت احمد یار خان بریلوی لکھتے ہیں: ”اعتکاف کا معنیٰ ہیں ، عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنا۔” (تفسیر نور العرفان : 44)
02) سورۃ البقرۃ کی وہ آیات جو روزہ کے فقہی، اخلاقی، معاشرتی اور معاشی احکام بیان کر رہی ہیں (183 تا 188) انہیں اگر بنظر غائر پڑھا جائے تو بے مذکورہ بالا پہلووں کے اعتبار سے بے شمار فوائد اخذ کیے جا سکتے ہیں لیکن سر دست صرف اعتکاف کے حوالے سے ایک بات کہنی ہے۔
03) ان چھ آیات میں بیان کردہ تمام احکام مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یکساں ہیں۔ اگر کسی آیت میں کسی کو استثناء دینا ہے تو اس پر ہمیں حدیث سے دلیل دینا ہو گی کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی ذمہ داری تھی کہ قرآن مجید کی وضاحت کریں (یعلمھم الکتاب) (لتبین للناس ما نزل الیھم) اور قرآن مجید کی وہ تفسیر و وضاحت سب سے زیادہ افضل اور حتمی و قطعی ہو گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔
ابنِ نجیم حنفی لکھتے ہیں: ”ہر وہ حکم جو مردوں کے لیے ثابت ہو، وہ عورتوں کے لیے بھی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ عورتیں مردوں کی نظائر ہیں ، سوائے اس حکم کے جس پر (خاص)نص وارد ہوجائے۔”(البحر الرائق لابن نجیم الحنفی: 1/43)
جناب مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ کہتے ہیں: ”عورتیں تمام احکام میں مردوں کے تابع ہوتی ہیں۔ (درس ترمذی از تقی: 3/328)
04) اعتکاف کے حوالے سے مردوں اور عورتوں میں فرق کا جو تصور ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے کہ مرد مسجد میں اعتکاف کریں گے اور عورتیں گھروں میں اعتکاف کریں گی، اس حوالے سے ضرورت اس بات کی ہے کہ وَأَنتُمۡ عَٰكِفُونَ فِي ٱلۡمَسَٰجِدِۗ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تشریح کی۔
05) رمضان کے مہینے میں عمرہ کے لیے جانے والے معمترین اگر اعتکاف کرنا چاہیں تو وہاں اس نظریہ کی رو سے تو خواتین کو پھر اپنے ہوٹلز میں اعتکاف کرنا چاہیے۔ کیونکہ مسجد الحرام اور مسجد النبوی بھی تو مساجد ہی ہیں اور دنیا کے کسی بھی خطے میں خواتین کے مسجد میں اعتکاف کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے وہ خدشات حرمین میں تو کہیں زیادہ پائے جاتے ہیں کیونکہ وہاں خیمہ کا تو تصور ہی نہیں ہے۔ کھلی مسجد میں اعتکاف کریں طہارت کے لیے مسجد سے باہر آئیں اور کھانے پینے کے لیے بھی مسجد سے باہر آئیں اور ان خدشات سے بچ کر دکھا دیں۔ نا ممکن ہے
06) مسجد کا اطلاق جائے نماز یا مصلی پر نہیں کیا جاتا بلکہ اصطلاحی طور پر اس مقام پر کیا جاتا ہے جہاں پنج وقتہ نماز قائم کی جاتی ہو اور نماز جمعہ کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہو۔ اور جب تک کوئی واضح قرینہ یا صارف نہ پایا جائے اس وقت اس آیت میں مسجد کا مطلب معروف معنی میں ہی لیا جائے گا نہ کہ گھروں میں قائم شدہ مصلی اور کسی بھی قسم کا جائے نماز وگرنہ پوری زمین نماز کے لیے طاہر ہے تو پھر اعتکاف زمین میں کہیں بھی کیا جانا جائز ہونا چاہیے۔
07) اعتکاف کی بنیاد بننے والی آیت سورۃ البقرۃ 183 تا 188 کا ایک جزو ہے اور ان چھ آیات میں جو بھی فقہی احکام اور اخلاقی آداب بیان کیے گئے ہیں وہ سب بلا تخصیص و تفریق مرد و عورت دونوں کے لیے ہیں اور اس پر کسی کا کوئی اختلاف نہیں تو صرف اعتکاف والے جزو کو مردوں کے ساتھ خاص کر دینا دلیل کا محتاج ہے وگرنہ یہ مانا جائے کہ باقی احکام و آداب کی طرح اعتکاف کا حکم بھی دونوں کے لیے عام ہے۔
08) عورت کی گھر میں نماز کی افضلیت پر قیاس کرتے ہوئے اس کے لیے گھر میں اعتکاف کا جواز پیدا کرنا بھی غیر معقول بات ہے تو کیا خیال ہے۔ مرد کی نفلی نماز بھی تو گھر میں افضل ہے جب کہ اعتکاف بھی غیر واجب ہے۔ پھر تو مردوں کے لیے بھی گھر میں اعتکاف بیٹھنے کا جواز ہونا چاہیے۔ یقینا عورت کی گھر میں نماز کی افضلیت پر قیاس کرتے ہوئے اعتکاف کا گھر میں احسن کہنا بھی دلیل کا محتاج ہے۔
09) احناف کی بعض کتب میں عورت کا اعتکاف مسجد میں بھی درست ہے۔ چنانچہ (منیۃ المفتی) میں ہے: لَوْ اِعْتَکَفَتْ فِی الْمَسْجِدِ جَازَ‘ اور ’’البدائع‘‘ میں ہے: لَهَا اَنْ تَعْتَکِفَ فِی مَسْجِدِ الْجَمَاعَةِ
اس پر تقریبا دس سے زائد دلائل ہیں جو دیے جا سکتے ہیں۔
10) خواتین کے گھر میں اعتکاف کے قائلین کی ایک دلیل یہ ہے کہ احادیث میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں کہ صحابیات مسجد میں اعتکاف کیا کرتی تھیں تو عرض ہے اول تو ایسا ہے نہیں لیکن پھر بھی اگر یہ بات مان لی جائے تو ایسی بھی کوئی حدیث نہیں ہے جس میں خواتین کا گھر میں اعتکاف کرنے کا ذکر ہو جب اعتکاف کا مسجد یا گھر میں کرنا یا نہ کرنا دونوں کیفیات غیر مذکور ہیں تو پھر فقہی قاعدہ کے تحت اعتکاف اپنی اصل کی بنیاد پر کیا جائے گا اور اس کی اصل اعتکاف کا مساجد میں کیا جانا ہے۔ جبکہ صحیح بخاری کتاب الصوم باب الاعتکاف کی معروف حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ امہات المومنین بھی مسجد میں اعتکاف کیا کرتی تھیں۔
(بخاری 2041)
11) مذکورہ بالا آیت کی وجہ دلالت یہ ہے کہ اعتکاف اگر مسجد کے علاوہ بھی درست ہو تو پھر اس کو مباشرت کی حرمت سے مخصوص کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جماع بالاجماع اعتکاف کے منافی ہے تو مساجد کے ذکر سے معلوم ہوا کہ اعتکاف مسجدوں سے مخصوص ہے۔ اس بناء پر ابن حجر رحمہ اللہ شارح بخاری رقمطراز ہیں:
’وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاء ُ عَلَی مَشْرُوطِیَّةِ الْمَسْجِدِ لِلِاعْتِکَافِ (فتح الباری:272؍4)
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اعتکاف کے لیے مسجد کا وجود شرط ہے۔‘‘
نیز حدیث
’اِذَا اعْتَکَفَ اَدْنٰی اِلَیَّ رَأْسَہٗ وَ ھوَ فِی الْمَسْجِدِ ‘
میں بھی اس امر کی دلیل ہے کہ اعتکاف مسجد کے ما سوا غیر درست ہے۔ چنانچہ’’المرعاۃ‘‘(۳۱۳/۳) میں ہے:
’وَ فِیْهِ اَنَّ الْاِعْتِکَافَ لَا یَصِحُّ فِیْ غَیْرِ الْمَسْجِدِ وَ اِلَّا لَکَانَ لَهُ اَنْ یَّخْرُجَ مِنْهُ لِتَرْجِیْلِ الرَّأْسِ‘
اس حدیث میں دلیل ہے کہ اعتکاف مسجد کے علاوہ غیر درست ہے ورنہ آپﷺ کے لیے ممکن تھا کہ سر مبارک کی کنگھی کے لیے باہر تشریف لے جاتے۔
12) اگر عورت کے گھر میں اعتکاف کی یہ دلیل بنائی جا رہی ہے کہ حجاب کے منافی معاملات رونما ہوتے ہیں تو عرض ہے کہ تو پھر حج و عمرہ میں حجاب کے منافی رویے کہیں زیادہ کثرت کے ساتھ دیکھنے کو نظر آتے ہیں تو کیا حج و عمرہ پر بھی اسی دلیل کا اطلاق کیا جائے گا۔ اور حیرانی اس امر پر ہے کہ عورتوں کا بغیر حجاب بازار جانا، دنیاوی معاملات میں بھرپور شرکت کرنا پر ممانعت بھی اس زمرے میں آنی چاہیے لیکن وہاں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
13) اعتکاف کی اصطلاحی تعریفات کو بغور پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے دنیاوی مشاغل و مصروفیات سے کٹ کر مسلمان اللہ سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کیا گھر میں یہ ممکن ہے جہاں مہمانوں کا انا جانا، افراد خانہ کی روز مرہ مصروفیات و بات چیت کے ساتھ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان میں اکثر آبادی کی مکانیت کو دیکھا جائے تو یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ اتنے چھوٹے گھروں میں یہ کیسے ممکن ہے اور فطری بات ہے شریعت کا کوئی حکم صرف امیروں کے لیے نہیں ہو سکتا۔
14) اعتکاف کے دوران جس روحانیت و تقدس کی ضرورت ہوتی ہے وہ صرف مساجد کے بابرکت ماحول میں ہی مل سکتی ہے گھروں میں اس کا وجود ناممکن ہے کیونکہ جس جگہ کو خاتون نے اپنے اعتکاف کے لیے مختص کیا ہو وہاں گھریلو زندگی کے تمام معاملات بالخصوص ازدواجی معاملات پاکی اور ناپاکی کے معاملات بھی ہوتے ہوں گے تو کیسے ممکن ہے کہ وہاں اعتکاف کو روحانیت و تقدس مل سکے۔
15) خواتین کا گھروں میں اعتکاف کی بنیاد اگر صرف علماء کے فتاوی ہی ہیں تو قرن اول کے محدثین کے فتاوی کہیں زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں بنیاد بنایا جائے۔
16) البتہ خواتین کے مساجد میں اعتکاف کے حوالے سے کہیں شریعت کے منافی کوئی رویہ نظر آتا ہے مثال کے طور پر حجاب کے منافی وغیرہ تو بہتر ہے کہ اسے ترک کر دیا جائے کیونکہ یہ ایک نفلی عبادت ہے۔
17) جب مرد کا اعتکاف مسجد کے علاوہ کہیں جائز نہیں تو عورت کے لیے بغیر دلیل کے جائز کیوں؟
پھر سب کے نزدیک مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کا رکن بھی ہے۔
(الھدایۃ مع البنایۃ: 3/407، ابن عابدین: 2/441، بلغۃ السالک: 1/538، کشاف القناع: 2/347)
جب اعتکاف مسجد کے ساتھ خاص ہے اور مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کا رکن ہے تو پھر بغیر دلیل کے عورت سے یہ ”خصوصیت” اور ”رکنیت ” کیسے ساقط ہو گئی؟
18) برصغیر پاک و ہند کے محقق حنفی عالم علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں: ”اگر عورت ایسی مسجد میں جس میں نماز باجماعت ہوتی ہو اور اس کے لیے خیمہ لگایا گیا ہو، اعتکاف کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس کا ثبوت عہد ِ نبوی میں نبی کریم کی بیویوں سے ملتا ہے، جیسا کہ صحیح بخاری سے ثابت ہے۔”(عمدۃ الرعایۃ: 1/255)
19) گھر کی مسجد نہ حقیقی مسجد ہوتی ہے، نہ ہی حکمی، کیونکہ مسجد میں خرید وفروخت حرام ہوتی ہے ، گھر کی مسجد میں خرید وفروخت ہو سکتی ہے، گھر کی مسجد کو تبدیل کیا جاسکتاہے، جب کہ حقیقی مسجد کو بلا ضرورت تبدیل نہیں کیا جا سکتا، مسجد میں جنبی انسان یا حائضہ عورت کا سونا منع ہے، جبکہ گھر کی مسجد میں سویا جا سکتا ہے، مسجد میں شور وغل اور کھیل کود منع ہے، جبکہ گھر کی مسجد میں کوئی حرج نہیں۔
20) ابنِ ہمام حنفی لکھتے ہیں: ”اگر عورت جامع مسجد میں یا اپنے قبیلے کی مسجد میں اعتکاف کرے تو جائز ہے، ہاں اس کے قبیلہ کی مسجد اس کے حق میں (قریب ہونے کی وجہ سے )جامع مسجد سے زیادہ بہتر ہے۔”(فتح القدیر شرح الھدایۃ: 2/394، شرح النقایۃ از ملا علی القاری الحنفی: 1/435)
والعلم عنداللہ
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ