سوال

کیاخواتین کے لیے دوران نماز پاؤں ڈھانپنا ضروری ہے، یا کھلے بھی رکھ سکتی ہیں؟ اس سلسلہ میں راجح موقف کیاہے؟ برائے کرم رہنمائی فرمادیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اس مسئلہ میں علمائے امت کا اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ نماز کے دوران عورت اپنے پاؤں ڈھانپ کر رکھے۔
ان کی دلیل ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث ہے جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا ، کہ عورت اوڑھنی اور قمیض میں نماز پڑھ سکتی ہے؟ جب کہ اس نے تہبند نہ باندھا ہوا ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“إِذَا كَانَ الدِّرْعُ سَابِغًا يُغَطِّي ظُهُورَ قَدَمَيْهَا”.[ سنن ابی داؤد:640]

’ہاں نماز ہوجاتی ہے جبکہ اس کی قمیص اس کے پاؤں کی پشت کو ڈھانپ دے‘۔
کچھ اہل علم کہتے ہیں عورت کے لیے ضروری نہیں کے گھر میں چہرہ ہاتھ اور پاؤں ڈھانپ کر رکھے۔
پاؤں جب قابل ستر حصہ نہیں ہیں، تو نماز میں بھی یہ پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ اور جمہور کی طرف سے جو روایت پیش کی گئی ہے وہ مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے ۔
جیسا کہ امام ابوداؤد نے اس حدیث کے آخر میں اس کی وضاحت کی ہے:

“رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَبَكْرُ بْنُ مُضَرَ، وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، وَابْنُ إِسْحَاقَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، لَمْ يَذْكُرْ أَحَدٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَصَرُوا بِهِ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا”.[ سنن ابی داؤد:640]

’اس حدیث کو مالک بن انس، بکر بن مضر، حفص بن غیاث، اسماعیل بن جعفر، ابن ابی ذئب اور ابن اسحاق نے محمد بن زید سے، محمد بن زید نے اپنی والدہ سے، اور محمد بن زید کی والدہ نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا ہے، بلکہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا پر ہی اسے موقوف کر دیا ہے‘۔
پھر وہ سند کے اعتبار سے بھی قابل حجت نہیں ہے۔کیونکہ اس میں ایک ام محمد نامی راویہ مجہول ہے۔
اور شيخ البانیؒ نے بھی اس پر ضعیف کا حکم لگایا ہے۔ [ارواء الغليل:1/304]
لہذایہ روایت ضعیف ہے۔بعض علماء پیروں کی پشت کے ڈھانپنے کے لیے ایک اور روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کے جواب میں فرمایا:

“يُرْخِينَ شِبْرًا ” فَقَالَتْ: إِذًا تَنْكَشِفُ أَقْدَامُهُنَّ، قَالَ: فَيُرْخِينَهُ ذِرَاعًا لَا يَزِدْنَ عَلَيْهِ”.[ترمذی:1731]

’ ایک بالشت لٹکا لیں انہوں نے کہا: تب تو ان کے قدم کھل جائیں گے، آپ نے فرمایا: ”ایک ہاتھ لٹکائیں اور اس سے زیادہ نہ لٹکائیں ‘۔
اس سے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ عورت کو پاؤں کی پشتوں سمیت نماز میں اپنا پورا جسم ہی ڈھانپ کر رکھنا چاہئے۔ لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا تعلق پردے کے عمومی حکم سے ہے، نمازی عورت کے لیے بھی اس کو ضروری قرار دینا غلط ہے۔ اس طرح تو پھر نماز پڑھتے وقت عورت کے لیے چہرے کو بھی ڈھانپنا ضروری قرار دینا پڑہے گا۔ کیونکہ پردے کے حکم میں عورت کا چہرہ بھی شامل ہے۔ اگر عورت کے لیے نماز کی حالت میں چہرہ ڈھانپنا ضروری نہیں ہے، تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے نماز کی حالت میں پیروں کی پشت کے ڈھانپنے کو بھی ضروری قرار دینا غلط ہے۔ مزید تفصیل کے لیے [فتاوی ابن تيميه: 11؍ 426- 430 ] ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
لہذا ہمارے رجحان کے مطابق عورت کے پاؤں ستر نہیں ہیں اس لیے ان کا نماز میں ڈھانپنابھی ضروری نہیں ہے۔
پاؤں ڈھانپنے کے وجوب والی سوچ کے سبب بعض عورتیں تکلف کرتے ہوئے جرابیں پہن کر نماز پڑھتی ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ