سوال (2307)
بعض خواتین کا کسی نا محرم مریض کی عیادت کے لیے جانا کیسا ہے؟
جواب
خواتین کا کسی بھی غیر محرم مرد کی عیادت و تیمارداری کے لیے جانا شرعا درست ہے، مگر شریعت اسلامیہ کی حدود و قیود و آداب کے ساتھ جا سکتی ہے۔
(1) شرعی پردے اور محرم رشتہ دار کے ساتھ جائے جیسے شوہر، والد، سسر، بھائی، بیٹا وغیرہ۔
(2) الله سبحانه وتعالى نے سورۃ الاحزاب میں جو گفتگو کرنے کا طریقہ بتایا ہے، اسے اختیار کیا جائے یعنی مخاطب ہوتے ہوئے نہ ہی لہجے میں بہت زیادہ نرمی و مٹھاس ہو کہ وہ آپ کی طرف رغبت و میلان قلبی رکھنے لگے، اور نہ ہی بہت زیادہ تلخی ہو کہ وہ برا محسوس کرنے لگے بلکہ نہایت سنجیدہ ادب و احترام والا انداز ہو اور ساتھ میں عمر و مرتبہ کے اعتبار سے بھائی، چچا، انکل، شیخ صاحب جیسے الفاظ سے مخاطب ہوا جائے۔
(3) جس کی عیادت کے لیے جا رہے ہیں اسے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم و اسوہ حسنہ کے مطابق تسلی و تشفی دیں۔
“لا بأس طهور إن شاءالله”
جیسے کلمات کے ساتھ اور ساتھ میں دعائیں دیں اور مسلمان کے لیے جہاں یہ امراض باعث تکلیف ہوتے ہیں، اگر ہم صبر و شکر بجا لائیں تو اس کا اجر وثواب کیا ہے اسے بیان کر دیں۔
اب غیر محرم کی عیادت کیے جانے کے جواز و افضل ہونے پر چند ایک تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
(1) نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان مبارک کے مطابق مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حق ہیں ان میں سے ایک حق اس کی عیادت و تیمارداری کرنا ہے۔
[دیکھیے صحیح البخاری: 1240 صحیح مسلم: 2162]
اور سیدنا براء بن عازب رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں:
“ﺃﻣﺮﻧﺎ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﺴﺒﻊ، ﻭﻧﻬﺎﻧﺎ ﻋﻦ ﺳﺒﻊ: ﺃﻣﺮﻧﺎ ﺑﺎﺗﺒﺎﻉ”
ہمیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سات چیزوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا. اب جن ساتھ چیزوں اور باتوں کا حکم دیا تھا ان میں سے ایک تھی ﻭﻋﻴﺎﺩﺓ اﻟﻤﺮﻳﺾ اور مریض کی عیادت کرنا
[صحیح البخاری: 1239]
ابن عبد البر نے کہا:
ﻭ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺃﻥ اﻟﻌﻴﺎﺩﺓ ﻟﻠﻤﺮﻳﺾ ﻭاﻟﺘﺸﻤﻴﺖ ﻟﻠﻌﺎﻃﺲ ﻭاﻻﺑﺘﺪاء ﺑﺎﻟﺴﻼﻡ ﻟﻴﺲ ﻣﻨﻬﻦ ﺷﻲء ﻭاﺟﺐ ﻳﺘﻌﻴﻦ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﺣﺴﻦ ﺃﺩﺏ ﻭﺇﺭﺷﺎﺩ۔۔۔ [الإستذكار لابن عبد البر: 5/ 538]
اس مسئلہ کی شرح کے لیے دیکھیے [شرح السنة للبغوي ،شرح:5/ 212 ، صحيح البخارى لابن بطال: 3/ 237، 238]
(2) فقیہ، محدثہ عالمہ فاضلہ صحابیہ أم المؤمنين سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا جب امت کی سب سے بہتر و افضل شخصیت اپنے بابا سیدنا ابو بکر صدیق رضی الله عنہ اور سیدنا بلال رضی الله عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لائیں تو کن الفاظ کے ساتھ عیادت کرتی ہیں انہی سے سنتے ہیں:
ﻗﺎﻟﺖ: ﻓﺪﺧﻠﺖ ﻋﻠﻴﻬﻤﺎ، ﻗﻠﺖ: ﻳﺎ ﺃﺑﺖ ﻛﻴﻒ ﺗﺠﺪﻙ؟ ﻭﻳﺎ ﺑﻼﻝ ﻛﻴﻒ ﺗﺠﺪﻙ؟
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں میں ان دونوں پر داخل ہوئی اور میں نے کہا میرے بابا جان آپ خود کو کیسا پاتے ہیں اور اے ( ہمارے مؤذن ) سیدنا بلال آپ خود کو کیسا پاتے ہیں یعنی آپ کی حالت کیسی ہے۔
[صحیح البخاری: 5654 ﺑﺎﺏ ﻋﻴﺎﺩﺓ اﻟﻨﺴﺎء اﻟﺮﺟﺎﻝ]
امام نسائی نے بھی انہی الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا ہے باب ﻋﻴﺎﺩﺓ اﻟﻨﺴﺎء اﻟﺮﺟﺎﻝ اور پھر حدیث عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو نقل کیا ہے دیکھیے [السنن الکبری للنسائی: 7453]
اور امام بخاری نے جس اثر کو بیان کیا ہے وہ سند کے ساتھ آپ نے الأدب المفرد: 530 سنده ضعيف میں نقل کیا ہے۔
حدیث أم العلاء کے بعد محدث مدينه شیخ عبدالمحسن العباد لکھتے ہیں:
ﺛﻢ ﺃﻭﺩ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ ﺑﺎﺏ: ﻋﻴﺎﺩﺓ اﻟﻨﺴﺎء، ﺃﻱ: ﺃﻥ ﻫﺬا ﻣﻦ ﻋﻴﺎﺩﺓ اﻟﻤﺮﻳﺾ، ﻭﻋﻴﺎﺩﺓ اﻟﻤﺮﻳﺾ ﻣﺴﺘﺤﺒﺔ ﻭﻣﺸﺮﻭﻋﺔ ﺳﻮاء ﻛﺎﻥ اﻟﻤﺮﻳﺾ ﻣﻦ اﻟﺮﺟﺎﻝ ﺃﻭ ﻣﻦ اﻟﻨﺴﺎء، ﻓﺎﻟﻨﺴﺎء ﺗﺰﻭﺭ اﻟﻨﺴﺎء ﻭاﻟﺮﺟﺎﻝ ﻳﺰﻭﺭﻭﻥ اﻟﺮﺟﺎﻝ، ﻭﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻫﻨﺎﻙ ﻣﺤﺮﻣﻴﺔ ﻓﻼ ﺑﺄﺱ ﺃﻥ ﺗﺰﻭﺭ اﻟﻨﺴﺎء اﻟﺮﺟﺎﻝ، ﻭﺃﻥ ﻳﻌﻮﺩ اﻟﺮﺟﺎﻝ اﻟﻤﺮﻳﺾاﺕ ﻣﻦ اﻟﻨﺴﺎء ﻭﻳﺪﻋﻮﻥ ﻟﻬﻦ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻫﻨﺎﻙ، ﻭﺇﻧﻤﺎ اﻟﻤﺤﺬﻭﺭ ﺇﺫا ﺗﺮﺗﺐ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﺘﻨﺔ ﻭﻛﺎﻥ ﻫﻨﺎﻙ ﺧﻠﻮﺓ.
ﻭﺃﺧﺮﺝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﻡ اﻟﻌﻼء ﻗﺎﻟﺖ: (ﻋﺎﺩﻧﻲ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﺃﻧﺎ ﻣﺮﻳﻀﺔ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺃﺑﺸﺮﻱ ﻳﺎ ﺃﻡ اﻟﻌﻼء! ﻓﺈﻥ ﻣﺮﺽ اﻟﻤﺴﻠﻢ ﻳﺬﻫﺐ اﻟﻠﻪ ﺑﻪ ﺧﻄﺎﻳﺎﻩ ﻛﻤﺎ ﺗﺬﻫﺐ اﻟﻨﺎﺭ ﺧﺒﺚ اﻟﺬﻫﺐ ﻭاﻟﻔﻀﺔ)، ﻭﻫﺬا ﻓﻴﻪ ﺃﻥ اﻷﻣﺮاﺽ ﻣﻜﻔﺮاﺕ ﻟﻠﺬﻧﻮﺏ ﻭﺫﻟﻚ ﻣﻊ اﻟﺼﺒﺮ ﻭاﻻﺣﺘﺴﺎﺏ، ﻭﺃﻣﺎ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻫﻨﺎﻙ ﺻﺒﺮ ﻭﻻ اﺣﺘﺴﺎﺏ، ﺑﻞ ﺭﺑﻤﺎ ﻭﺟﺪ اﻟﺘﺴﺨﻂ ﻭاﻟﺘﻠﻮﻡ ﻭﻏﻴﺮ ﺫﻟﻚ ﻓﺈﻥ ﻫﺬا ﻓﻴﻪ ﺯﻳﺎﺩﺓ اﻟﻀﺮﺭ ﻭاﻟﺒﻼء ﻭاﻟﺸﺮ ﻋﻠﻰ اﻹﻧﺴﺎﻥ، ﻭاﻟﻌﻴﺎﺫ ﺑﺎﻟﻠﻪ
شرح سنن أبی داود ﺷﺮﺡ ﺣﺪﻳﺚ: (ﺇﻥ ﻣﺮﺽ اﻟﻤﺴﻠﻢ ﻳﺬﻫﺐ اﻟﻠﻪ ﺑﻪ ﺧﻄﺎﻳﺎﻩ ﻛﻤﺎ ﺗﺬﻫﺐ اﻟﻨﺎﺭ ﺧﺒﺚ اﻟﺬﻫﺐ ﻭاﻟﻔﻀﺔ
ایسے ہی کسی مسلمان کی اس نیت و ارادہ سے تیمارداری کرنا کہ
(1) میرے الله تبارك و تعالى مجھ سے راضی ہو جائیں
(2) دوسرا کہ یہ حق مسلم ہے۔
(3) تیسرا کہ عیادت مسلم کی صحیح احادیث میں بہت زیادہ فضیلت وارد ہوئی ہے ۔
(4) چوتھا کہ یہ عمل نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے تو جب ایک بندہ مسلم اور مسلمہ خاتون یہ سب کچھ ذہن میں رکھ کر عیادت و تیمارداری کے لیے جائیں گے تو إن شاءالله الرحمن ضرور اجر وثواب ثابت ہو جائے گا۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
عورت شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے پردے کی حالت میں غیر محرم مرد کی عیادت کے لیے جا سکتی ہے اور عیادت کر سکتی ہے۔
شرعی حدود میں جہاں پردہ ہے وہاں یہ بھی ہے کہ وہ اکیلے نہ ہوں یعنی اپنے محرم کے ساتھ یا دیگر عورتوں کی موجودگی میں عیادت کر سکتی ہے۔
صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے:
” باب عیادۃ النساء للرجال”
عورتوں کا مردوں کی عیادت کو جانا
اس باب میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت پیش کی ہے کہ حضرت اُم الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک انصاری صحابی کی عیادت کی۔ ایک دوسری روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار ہو گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے والد محترم! ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کی عیادت کو تشریف لے گئیں اور ان دونوں سے دریافت کیا”کیف تجدک” آپ کی حالت کیسی ہے؟
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے عورتیں بھی عیادت کا ثواب حاصل کر سکتی ہیں اور غیر محرم مرد کی عیادت بھی کر سکتی ہیں۔
فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ