خواتین کا مردوں کے ساتھ دینی پروگرام کرنا
کچھ ایام سے اس موضوع پر سوشل میڈیا پر بحث کی جا رہی ہے۔ میں اس موضوع پر اپنی ذاتی رائے پیش کرنے سے قبل اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہتا ہوں کہ اس نے ہمین اتنا خوبصورت اور مکمل منھج دیا ہے کہ حق کے ابلاغ کے لیے مسلکی تعصب نہیں کرتے، اور صراحت کے ساتھ کہتے ہیں جو غلط ہے وہ غلط ہےخواہ وہ میرا ہم مسلک ہی کیوں نہ کرے البتہ اس علانیہ اور خفیہ نصیحت کے کچھ آداب ہیں جن کا خیال رکھا جانا ضروری ہے لیکن چونکہ یہ مسئلہ علانیہ ہے لہذا نصیحت بھی علانیہ ہی بہتر معلوم ہوتی ہے۔
آئیں اس عنوان کے مختلف پہلووں کے عناوین پر ایک نظر ڈال لیں تاکہ خلط مبحث کا شکار نہ ہوں۔
خواتین کا مردوں کے ساتھ پروگرام
خواتین کا مردوں کے ساتھ دینی پروگرام
خؤاتین کا فریضہ الامربالمعروف والنھی عن المنکر قائم کرنا
خؤاتین کا عوام الناس کو دعوت دین دینا
خؤاتین کا صرف خؤاتین کو دعوت دین دینا
خؤاتین کا بلاتخصیص مرد و عورت کو دنیاوی علوم پڑھانا
خؤاتین کا صرف خواتین کا دنیاوی علوم پڑھانا
خواتین کا مرد و عورت کو دین پڑھانا
خواتین کا صرف خؤاتین کو دین پڑھانا
یہ اور اس طرح کے تمام موضوعات میں خلط مبحث ہونے کی وجہ سے عوام الناس تو کجا ہمارے بعض علماء تک علمی تسامح کا شکار ہو رہے ہیں۔ سوال یہ کیا جاتا ہے کہ کیا کوئی خاتون ٹی وی چینل پر مردوں کے ساتھ پوڈ کاسٹ کر سکتی ہے ؟
تو ہمارے بعض علماء سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور کچھ محدثات کی مثالیں پیش کرنے لگ جاتے ہیں۔
یہ خلط مبحث ہونے کی وجہ سے ہے ان تمام موضوعات کی بنیاد ایک شرعی اصولی قاعدہ ہے کہ
(1) “مرد و زن کا اختلاط شریعت نے قطعا جائز نہیں ہے”
عبادات ہوں یا معاملات یا سیاست یا تجارت یہ قاعدہ ہر جگہ کارفرما ہے اگر کہیں اس میں استثناء ہے تو شریعت کی عطا کردہ اجازت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے یا استثناء کی صورت میں اور استثناء صرف اضطراری حالات میں ہے۔
اضطرار شریعت کی رو سے جان مال عزت دین ختم ہونے کی کیفیت کا نام ہے۔ مثال کے طور پر تقریبا تمام میٹرنٹی ھومز میں ٹیکنیشنز مرد حضرات ہوتے ہیں میرے محدود علم کے مطابق کوئی عورت ٹیکنیشن نہیں ہے بچوں کی ولادت یا ڈی این سی وغیرہ میں عورت کی جان کو خطرہ ہے لہذا بقدر اضطرار اجازت ہے۔ اسی طرح علاج کا معاملہ ہے۔
لہذا مذکورہ بالا موضوعات میں سب سے پہلے مرد و زن کے اختلاط کے حوالے سے شریعت کا اصولی قاعدہ و مزاج سمجھ لیں اور اضطرار کو سمجھ لیں تو امید ہے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔
(2) شریعت نے مرد اور عورت دونوں کے فرائض کے دائرہ کار کا تعین کر دیا ہے عورت کے دائرہ کار کی اصل قرآنی حکم ” وقرن فی بیوتکم” ہے۔ البتہ حسب ضرورت شریعت کی عطا کردہ اجازت کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ تعلیم کے لیے کسی سکول کالج یونی ورسٹی یا مدرسہ جانا، روز مرہ اشیاء ضرورت کی خرید و فروخت کے لیے قریبی مارکیٹ یا بازار جانا بچوں کو سکول چھوڑنا لانا لے جانا گوکہ اس میں سے ہر ایک پر تفصیلی بات ہو سکتی ہے جس میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن اصل حکم اپنی جگہ موجود ہے کہ عورت کی ہر ذمہ داری کا تعلق گھر سے ہے براہ راست معاشرے سے کسی بھی صورت میں نہیں ہے۔
(3) عورت کے لیے گھر سے کسی ضرورت کے لیے نکلنا میں ایک اور اضافی شرعی قاعدہ موجود ہے جس کا تعلق ان کی شرم و حیا سے ہے یعنی حجاب۔ کوئی ایسی ذمہ داری جس میں حجاب آڑے آتا ہو شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی الا کوئی اضطرار سامنے آ جائے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ عورت کا حجاب اسے کسی تعلیم یا مثبت جائز سرگرمی سے نہیں روکتا۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ ریسٹورینٹ جاتا ہوں پکنک پر جاتا ہوں باقاعدہ حجاب کے ساتھ سارے کام ممکن ہوتے ہیں الحمدللہ حجاب کہیں بھی کسی بھی جگہ رکاوٹ نہیں بنتا یہ محض لبرلز اور دین دشمن لوگوں کے نظریات ہیں البتہ عورت کا آرمی میں جانا پائلٹ بننا یا عام ڈاکٹر بننا یا کالج یونی ورسٹی کا استاد بننا اس پر الگ سے تفصیلی گفتگو کی جا سکتی ہے وہ ابھی ہمارا موضوع نہیں ہے۔
(4) جب عورت کے دائرہ کار کا تعین کر دیا گیا اس کی ذمہ داریوں کا تعین کر دیا گیا تو اس کی دلیل ہم قرون اولی سے تلاش کر سکتے ہیں کہ جو خوبصورت خوب سیرت مثالی وجود جو کہ رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ تھے انہوں نے کن کن مجالات میں حصہ لیا ، کیا ان صحابیات و تابعیات نے وہ سارے کام کیے جو آج ایک عورت دین کے نام پر کر رہی ہے۔ یہاں میں ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی کر دوں بڑے سے بڑے عالم دین کا کوئی قول یا عمل دین میں دلیل نہیں بن سکتا لہذا میری التماس ہے کہ یہ دلیل نہ دیجیے گا کہ فلاں خاتون تو یہ کام کر رہی ہیں کیا انہیں اس بات کا علم نہیں۔ دین میں دلیل صرف اور صرف اللہ کا فرمان اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور ان کی فہم ہے۔ کسی خاتون یا شخص کا کرنا دین میں دلیل نہیں خواہ وہ اھل حدیث ہی کیوں نہ ہو۔
(5) درس و تدریس کے حوالے سے دین میں اجازت ہے اس حوالے سے بے شمار دلائل موجود ہیں خاتون کا خاتون کو پڑھانے میں تو بلا اختلاف جائز ہے البتہ ایک خاتون کا مرد حضرات کو پڑھانے پر اختلاف موجود ہے اور یہی ہمارا محل اختلاف اور محل شاھد ہے اور خلط مبحث کا شکار بھی اکثر احباب اس مقام پر ہوئے ہیں کہ درس و تدریس اور دعوت دین میں فرق کیجیے
(6) شریعت نے دعوت دین کے حوالے سے درس وتدریس کی حد تک خواتین کو اجازت دی ہے رسول اللہﷺ کا خواتین کو پڑھانا اور کچھ صحابیات کا پڑھانا یا مسائل بتانا (گوکہ صحابیات کے مسائل بتانے میں بھی مفصل کلام موجود ہے کہ اس میں عموم نہیں ہے بلکہ محارم کا تصور یہاں بھی موجود ہے بہرحال اس تفصیل میں جائے بغیر درس وتدریس کی حد تک شریعت نے اجازت دی اور یہ درس و تدریس ایک مخصوص ماحول اور ادارے کے اندر رہتے ہوئے تمام تر شرعی ضوابط یعنی حجاب وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جا سکتی ہے)
(7) شریعت نے دعوت دین کے حوالے سے عورت کو کہیں بھی مکلف نہیں بنایا کہ دعوت دین کے لیے مرد و زن کے سامنے آئے اور وعظ و نصیحت کرے یا اسفار اختیار کرے خواہ اس میں کوئی محرم ہی ساتھ کیوں نہ ہو ، یہاں یہ کہا گیا کہ ایک عورت اپنے محرم کے ساتھ دعوت دین کے لیے سفر کرتی ہے اس کا محرم اس کے ساتھ ہوتا ہے تو یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ جب شریعت نے عورت کو دعوت دین کا مکلف ہی نہیں کیا تو پھر محرم کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔
(8) نصوص قرآن اور فرامین رسالت دیکھ لیں تمام انبیاء مرد حضرات ہیں کوئی عورت نبی نہیں ہے۔ دعوت دین کے تمام اسالیب اور آداب کا بغور جائزہ لیا جائے تو وہ ایک عورت کے لیے کما حقہ کرنا ممکن ہی نہیں ہیں۔ کجا کہ ایک عورت ویڈیو پروگرام میں دنیا کے سامنے بطور میزبان یا مہمان آئے اور وعظ و نصیحت کرے۔
(9) رسول اللہ ﷺ خؤاتین سے اور مردوں سے جن باتوں پر بیعت لیتے تھے ان کا جائزہ لیا جائے تو ان امور سے واضح ہوتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے دائرہ کار الگ الگ ہیں۔
(10) عورت کے دعوت دین، فریضہ امر بالمعروف والنھی عن المنکر اور تمام تر دینی سرگرمیوں کا تعلق اس کے محرم رشتوں سے ہے غیر محرم رشتوں سے نہیں ہے ، یہاں ایک سوال ضرور سامنے آتا ہے کہ سوشل میڈیا کے اکاونٹ کے ذریعے کیا کوئی عورت دعوت دین کا کام کر سکتی ہے تو اس میں تصویر ، آواز کا کوئی عمل دخل نہیں اپنے اصل نام کے بجائے اپنے باپم بیٹے بھائی کے نام سے تحریری صورت میں دعوت دین کا کام کیا جا سکتا ہے اور اس میں بنیادی شرط یہ دعوت علانیہ ہو ان باکس میں دعوت دین جائز نہیں ہے۔
یہ میری ذاتی رائے ہے اگر اس میں کہیں کسی مقام پر کوئی غلطی ہے تو وہ میری طرف سے ہے نشاندہی کریں میں اپنی تصحیح کر لوں گا۔
شاہ فیض الابرار صدیقی