مکے میں جو برکت حلیمہ سعدیہ نے اپنے دامن میں سمیٹی تھی وہ سفر کرتے کرتے ساتھ ہی چلی آئی کہ مسافر بھی ساتھ ہی ساتھ آیا تھا ۔ حلیمہ کہتی ہیں کہ خشک سالی کے دن چل رہے تھے اور ایسے میں بھی ہماری بکریاں جو چرنے جاتیں تو پیٹ بھرے واپس آتیں ۔ لوگ کہتے کہ :
“جہاں دختر ابی ذوئیب کی بکریاں چرتی ہیں تم بھی ادھر ہی اپنے جانور چراؤ ۔ ”
لیکن برکت ہر کسی کے مقدر میں کہاں کہ
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
ایک روز آپ رضائی بہن کے ساتھ بکریوں کے ہمراہ نکل آئے ، گرمی کی شدت نے دل و جاں کو جیسے پگھلا کر رکھ دیا تھا ۔ مائی حلیمہ بیٹی پر ناراض ہوئی کہ کیونکر ایسی گرمی میں بھائی کو لیے نکلی ۔۔۔ بہن نے عجب قصہ سنایا کہ:
“میرے بھائی کو گرمی نہیں لگتی کہ جہاں جہاں نکلتا ہے سر پر بادل ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔۔.”
حلیمہ سعدیہ نے دیکھا کہ واقعی بادل سر پر سایہ فگن تھا اور ہمارے حضور چلتے تھے تو بادل چلتا تھا آپ رک جاتے تھے تو بادل رک جاتے تھے ۔
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
دو برس برکتوں کے گزرے اور آپ کی واپسی کا وقت آن پہنچا ۔۔۔ اماں کا دل اس خیال سے ہی اتھل پتھل ہو رہا تھا کہ کیا یہ برکتیں واپس چلی جائیں گی؟؟
لیکن واپس جانا تو تھا، سو دل پر ہزار بوجھ لیے بی بی حلیمہ سعدیہ اپنے خاوند کے ہم راہ مکہ پہنچے ، اور جا کر بی بی آمنہ کے حضور عرض گزار ہوئے کہ :
” بی بی کچھ روز کو برکتوں کی برکھا اور دان کیجیے کہ آپ تو دیالو ہیں کہ آپ نے ہی تو کہا تھا اس بچے کے باپ بارے ۔۔۔”
بی بی نے انکار کیا اور ادھر سے اصرار ہوا ، شدت طلب نے یہ منظر کیا کہ
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
آخر بی بی مان گئیں اور ہمارے حضور جو خوب قد کاٹھ نکال چکے تھے ، مزید دو برس کے لیے واپس آ گئے ۔
لیکن تقدیر میں کچھ اور لکھا تھا کہ ابھی آئے ہوئے دو تین ماہ گزرے تھے کہ سب کچھ بدل گیا ۔ اس روز بھی آپ اپنے رضاعی بھائیوں کے ہم راہ بکریاں چرانے نکلے ۔ ادھر آپ کھیل ریے تھے ، کہ آسمان سے روح القدس کا نزول ہوا ۔ انہوں نے آپ کو زمین پر لٹایا اور سینہ کھول دیا ۔ روایت میں ہے کہ:
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ بچپنے میں جب بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے تو جبرئیل امین نے آکر آپ کو زمین پر چت لٹایا اور سینہ چاک کرکے آپ کادل مبارک با ہر نکالا اور پھر اس کے اندر سے جما ہوا کچھ خون نکالا اور کہا یہ آپ کے دل میں شیطان کاحصہ ہے ۔ پھرایک طلائی طشتری میں آبِ زم زم سے آپ کے قلب مبارک کو غسل دیا اور پھر اس کو شگاف سے ملایا اور اس کی اصلی جگہ پر اسے رکھ دیا۔ اتنے میں دوسرے بچوں نے دوڑ کر آپ کی رضائی والدہ کو اطلاع دی کہ محمد قتل کردیا گیا ہے تو انہوں نے آکر آپ کا اڑا ہوا رنگ دیکھا۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے سینہ مبارک پر ٹانکوں کے نشان دیکھے ہیں۔‘‘
اس بیچ کچھ دوسرے بچے مائی حلیمہ سعدیہ کی طرف بھاگے اور گھر آ کر سارا ماجرا آن سنایا ۔۔ وہ کچھ حیران اور کچھ پریشان آپ کی جانب بھاگیں تو دیکھا کہ آپ کے رنگ بھی فق اور آ کر ماں سے لپٹ کر یوں روئے کہ صحرا میں برسات ہو گئی ۔
جب ہجرت کر کے آپ مدینہ آ چکے تو ایک بار اماں حلیمہ آپ سے ملنے بھی آئی تھیں
خبر دینے والے نے خبر دی کہ ایک بوڑھی اماں آپ سے ملنا چاہتی ہیں ، بلایا گیا تو ایک کمزور سے بوڑھی عورت آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہیں اور رسول ان کی جانب بھاگ رہے ہیں ، پاس آئے اور اسی طور لپٹ پڑے اور پکار رہے تھے :
” میری ماں ، میری ماں ”
شق صدر کے اس واقعے کے بعد حلیمہ سعدیہ کے میاں ڈر گئے اور اپنی اہلیہ کو کہا کہ کوئی بڑا نقصان نہ ہو جائے اور اس سے پہلے بچہ والدہ کے حوالے کر آتے ہیں۔۔
مکے پہنچے اور بی بی آمنہ سے آ کر عرض گزاری کہ:
“آپ کی امانت آپ کے حوالے ”
بی بی آمنہ جیسے چونک گئی کبھی دو تین ماہ پہلے تو یہ دونوں میاں بیوی بصد اصرار آپ کو لے کر گئے تھے اور چھوڑنے پر ماننے نہ دیتے تھے اور اب چہروں پر عجیب ویرانی اور ساتھ اصرار کہ آپ اپنے بچے کو واپس لے لیجئے ۔ آپ نے مائی حلیمہ سعدیہ سے پوچھا کہ ماجرہ کیا ہے ؟۔
حلیمہ سعدیہ نے بات کو بہت بدلنا چاہا لیکن وہ بھی مکہ کی سردار تھیں کہ ذہانت جن کے گھر میں پلتی ہے سو بی بی حلیمہ کو بتاتے ہی بنی ۔ اور شق صدر کا سارا تمام تر قصہ سنایا اور ساتھ اپنی ماہرانہ رائے بھی دی کہ شاید بچے پر کوئی آسیب کا اثر ہے ۔ بی بی حلیمہ کی اس بات پر بی بی آمنہ نے اس پر مسکراتے ہوئے کہا :
“سنو حلیمہ! سنو ایسا بالکل نہیں ، واللہ شیطان کی کیا مجال کہ میرے لخت جگر کے پاس آئے، لو میرے پاس بیٹھو میں تمہیں ولادت کا قصہ سناتی ہوں۔
بی بی حلیمہ ہمہ تن گوش ہوئیں تو بی بی آمنہ نے کہا:
“ان کا حمل ایسا آسان تھا کہ شاید کسی کا ہو اور حالت حمل میں مجھے خواب آیا کہ گویا میرے جسم سے نور خارج ہوا ہے جس سے شام کے محل منور ہوئے اور دور تک دکھائی دیے ، اور پھر جب وضع حمل کا وقت آیا تو میرا محمد ہاتھوں سے ٹیک لگائے آسمان کو تک رہا تھا ۔ سو یہ خوف اور خطرے کی باتیں جانے دو”
یہ کہا اور بی بی آمنہ نے اپنا بچہ گود لیا، حضور مکہ میں واپس آن پہنچے تھے ۔
صلی اللہ علیہ وسلم

ابوبکر قدوسی