سوال  (585)

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان دین متین بیچ اس مسئلے کے کہ:
سال 2018ء میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے The Transgender Persons (Protection of Rights) Act 2018 منظور ہوا۔ اس قانون کا مسودہ پاکستان پیپلز پارٹی کی خواتین اراکین پارلیمنٹ نے تیار کیا۔ جبکہ اس قانون کو منظور کرنے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے بھرپور کردار ادا کیا۔
2020ء میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ وزارت انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کی سرپرستی میں اس قانون کے تابعThe Transgender Persons (Protection of Rights) Rules 2020 بنائے گئے۔
مختلف فتاوی جات میں دیوبند، بریلوی، اہل حدیث اور اہل تشیع مکاتب فکر نے The Transgender Persons (Protection of Rights) Act 2018 کو خلاف اسلام اور خلاف شریعت قرار دیا۔ بعد ازاں مذکورہ ایکٹ 2018ء اور اس کے تابع Rules 2020 کی متعدد دفعات کو اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت نے بھی شریعت سے متصادم قرار دیا۔
چند روز قبل تحریک انصاف(PTI)، پاکستان مسلم لیگ (ن) (PMLN) اور پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) نے عام انتخابات 2024ء کے لیے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کیا ہے۔ ان تینوں جماعتوں کے منشوروں میں یہ واضح درج ہےکہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ صرف اس قانون کو نافذ کریں گے بلکہ Transgenderism کے فروغ کے لیے مزید اقدامات بھی کریں گے۔ بالفاظ ِدیگر یہ تینوں سیاسی جماعتیں اب وطن عزیز میں جنس کی تبدیلی، تشبہ ؍ مشابہت، ہم جنس پرستی اور اس جیسی دیگر فواحش ومنکرات کو قانونی تحفظ دے کر اسے مملکت خداداد پاکستان میں مزید فروغ وتقویت دینا چاہتی ہیں، اور اس حوالے سے ان جماعتوں کے عزائم ان کے نشر کردہ منشوروں میں نہایت واضح ہیں۔
مندرجہ بالا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ سے التماس ہے کہ قوم کی رہنمائی فرمائیں کہ کیا مذکورہ بالا سیاسی جماعتوں اور ان کے نامزد امیدواروں کو ووٹ دے کر اور ان سیاسی جماعتوں کی حمایت کر کے اقتدار جیسی حساس امانت سپرد کرنا قرآن وسنت اور احکام شریعت کی روشنی میں درست ہو گا؟
بينوا تؤجروا…
جزاکم اللہ احسن الجزاء
المستفتي
اسلام آباد
31 ؍ جنوری 2024ء
عبدالرحمن، ایڈووکیٹ

جواب

ہمارے ہاں مروجہ الیکشن کا شریعت سے کچھ بھی تعلق نہیں، سب کچھ غیر شرعی ہے۔ بلکہ اس میں دین اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور من پسند قانون سازی کی جاتی ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید محتبی سعیدی حفظہ اللہ

سلفی علماء کا موجودہ جمہوریت اور الیکشن کے بارے میں واضح موقف ہے کہ ہم اس کو اسلامی طریقہ کار نہیں سمجھتے ہیں، اس وجہ سے ہم سرے سے ووٹ لینے یا دینے کے حق میں نہیں ہیں، یہ الگ بات ہے کہ جو حالات بنے ہوئے ہیں اس میں ہر شخص کا ووٹ ڈال دیا جاتا ہے ، اس وجہ کچھ لوگوں نے یہ راستہ چن لیا ہے کہ ہمیں سپورٹ کریں ، بس یہ ان کی تاویل ہے ، اس کے وہ خود جوابدہ ہیں ، حقیقت میں یہ شرعی طریقہ کار نہیں ہے، نہ یہ شہادت ہے، نہ گواہی ہے اور نہ ہی امانت ہے ، ایسے لوگ قرآن و حدیث سے کشید کرتے ہیں ، یہ ایک رائے ہے جس میں انسان بغیر کسی تمیز کے حصہ ڈالتے ہیں ، اس میں مسلم و غیر مسلم ، مرد و عورت اور عالم و جاہل سب برابر ہیں ، سب کا ایک ہی ووٹ اور رائے ہوتی ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

ٹرانس جینڈر یعنی تبدیلی جنس کی اجازت عصر حاضر کا ایک عظیم فتنہ ہے، جس میں شریعت کے ساتھ ساتھ فطرت سے بھی بغاوت ہے، (اس کی مکمل تفصیل لجنۃ العلماء للإفتاء کے فتوی نمبر:182 میں موجود ہے)
اہل علم کے نزدیک جمہوریت، الیکشن اور ووٹنگ وغیرہ کا اسلامی نظام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، گو بعض علماء اخف الضررین کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی گنجائش بیان کرتے ہیں، لیکن ان کے نزدیک بھی ایسے کسی بھی فرد، جماعت، پارٹی کو ووٹ دینا یا اس کی حمایت کرنا جائز نہیں جو کسی بھی خلاف شریعت عمل کے نفاذ میں کوشاں ہے یا آئندہ اس کی تنفیذ کے لیے جدوجہد کا وعدہ کر رہی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ [المائدة: 2]
’گناہ اور سرکشی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو‘۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ