’’خلافتِ عثمان رضی اللہ عنہ پر صحابہ و تابعین کا اجماع‘‘

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت اِس اعتبار سے اجماعی تھی کہ ان کی بیعت پر کسی قسم کا کوئی اِختلاف نہیں ہوا۔ بلکہ جب عشرہ مبشرہ میں سے باقی رہ جانے والے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نامزد کردہ اصحابِ شوری نے ان کی خلافت کو تسلیم کیا تو سبھی لوگوں نے تسلیم کر لیا، لوگوں کی طرف سے کوئی بھی اعتراض سامنے نہیں آیا تھا۔

⇚جیسا کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ خلافتِ عثمان کا قصہ بیان کرتے ہیں :

فَلَمَّا اجْتَمَعُوا تَشَهَّدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ يَا عَلِيُّ إِنِّي قَدْ نَظَرْتُ فِي أَمْرِ النَّاسِ فَلَمْ أَرَهُمْ يَعْدِلُونَ بِعُثْمَانَ فَلَا تَجْعَلَنَّ عَلَى نَفْسِكَ سَبِيلًا فَقَالَ أُبَايِعُكَ عَلَى سُنَّةِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْخَلِيفَتَيْنِ مِنْ بَعْدِهِ فَبَايَعَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَبَايَعَهُ النَّاسُ الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ وَأُمَرَاءُ الْأَجْنَادِ وَالْمُسْلِمُونَ.

’’سب لوگوں کے جمع ہو جانے کے بعد عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حمد وثناء کے بعد فرمایا : اما بعد! اے علی! میں نے لوگوں کے معاملے میں غور و فکر کیا ہے تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو ہی اختیار کرتے ہیں، لہذا آپ بھی اپنے دل میں کوئی دوسری بات نہ رکھیں۔ پھر فرمایا کہ میں اللہ کے دین اور اس کے رسول کی سنت اور آپ کے دونوں خلفاء کے طریقے پر آپ کی بیعت کرتا ہوں ۔ چنانچہ پہلے ان سے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیعت کی، پھر سب لوگوں نے، مہاجرین وانصار اور فوجی دستوں کی قیادت اور تمام مسلمانوں نے بیعت کی۔‘‘
(صحیح بخاري : ٧٢٠٧)

⇚بلکہ لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہی اس بات پر متفق ہو چکے تھے جیسا کہ حارثہ بن مضرّب بیان کرتے ہیں :

«حَجَجْتُ فِي إِمَارَةِ عُمَرَ فَلَمْ يَكُونُوا يَشْكُونَ أَنَّ الْخِلَافَةَ مِنْ بَعْدِهِ لِعُثْمَانَ».

’’میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حج کیا تو لوگوں کو کوئی شک نہیں تھا کہ اُن کے بعد خلیفہ عثمان ہوں گے۔‘‘
(مصنف ابن أبي شيبة : ٧ ‏/ ٤٤٠ وسنده صحیح)

⇚سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا : آپ کا کیا خیال ہے، یہ لوگ میرے بعد کسے خلیفہ بنائیں گے؟ میں نے کہا : «رَأَيْتُ النَّاسَ قَدْ أَسْنَدُوا أَمْرَهُمْ إِلَى عُثْمَانَ». ’’میں نے لوگوں کو دیکھا ہے کہ انہوں نے اپنا معاملہ عثمان رضی اللہ عنہ کو سپرد کر دیا ہے۔‘‘
(تاريخ المدينة لابن شبة: ٣/‏٩٣٢ وسندہ صحیح)

اس طرح کئی ایک علماء نے تصریح کی ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت سب سے پختہ اور اجماعی تھی۔

⇚جیسا کہ امام عبد اللہ بن ادریس رحمہ اللہ (١٩٢هـ) فرماتے ہیں :

«مَا كَانَ فِي الْقَوْمِ أَثْبَتَ عَقْدًا فِي الْخِلَافَةِ مِنْ عُثْمَانَ، كَانَتْ خِلَافَتُهُ بِمَشُورَةِ سِتَّةٍ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ».

’’خلافت کے معاملے میں عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ پختہ بیعت کسی کی نہیں تھی کہ اُن کی خلافت چھ بدری صحابہ کی مشاورت سے ہوئی۔‘‘
(السنة لأبي بكر بن الخلال : ٢/‏٣٢٢ وسنده صحیح)

⇚اسی طرح امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ (٢٠٤هـ) فرماتے ہیں :

«أَجْمَعَ النَّاسُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ، وَاسْتَخْلَفَ أَبُو بَكْرٍ عُمَرَ، ثُمَّ جَعَلَ الشُّورَى عَلَى سِتَّةٍ عَلَى أَنْ يُوَلُّوهَا وَاحِدًا مِنْهُمْ، فَوَلَّوْهَا عُثْمَانَ».

’’تمام لوگوں نے خلافتِ ابو بکر پر اجماع کر لیا، ابو بکر نے عمر کو منتخب کر دیا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے چھ لوگوں کی کمیٹی بنا دی کہ وہ اپنے میں سے ایک کو چُن لیں تو ان سب نے عثمان رضی اللہ عنہ کو چُن لیا۔‘‘
(حلية الأولياء لأبي نعيم : ٩/‏١١٥، مناقب الشافعي للبيهقي : ١/‏٤٣٥ وسنده صحیح)

⇚ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (٢٤١هـ) فرماتے ہیں :

«مَا كَانَ فِي الْقَوْمِ أَوْكَدُ بَيْعَةً مِنْ عُثْمَانَ، كَانَتْ بِإِجْمَاعِهِمْ».

’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر پختہ بیعت کسی کی نہیں تھی، کیوں کہ اُن کی بیعت (اُسی وقت) اجماع کے ساتھ ہوئی۔‘‘
(السنة لأبي بكر بن الخلال: ٢/‏٣٢٠ وسنده حسن)

⇚امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ (٣٢٤هـ) فرماتے ہیں :

وثبتت إمامة عثمان رضي الله عنه بعد عمر رضي الله عنه بعقد من عقد له الإمامة من أصحاب الشورى؛ الذين نص عليهم عمر رضي الله عنه، فاختاروه ورضوا بإمامته، وأجمعوا على فضله وعدله.

’’عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد اُن کے مقرر کردہ، نامزد اصحاب شوری کے اراکین کے فیصلے سے ہوئی، انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا، اُن کی خلافت پر راضی ہوئے اور ان کے فضل وعدل پر پوری طرح متفق ہو گئے۔‘‘
(الإبانة عن أصول الديانة، صـ ٢٥٨)

⇚امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ (٤٣٠هـ) فرماتے ہیں :

فَاجْتمع أهل الشورى ونظروا فِيمَا أَمرهم الله بِهِ من التَّوْفِيق وأبدوا أحسن النّظر والحياطة والنصيحة للْمُسلمين وهم الْبَقِيَّة من الْعشْرَة الْمَشْهُود لَهُم بِالْجنَّةِ واختاروا بعد التشاور وَالِاجْتِهَاد فِي نصيحة الْأمة والحياطة لَهُم عُثْمَان ابْن عَفَّان رضي الله عنه لما خصّه الله بِهِ من كَمَال الْخِصَال الحميدة والسوابق الْكَرِيمَة وَمَا عرفُوا من علمه الغزير وحلمه …. لَمْ يخْتَلف على مَا اختاروه وَتَشَاوَرُوا فِيهِ أحد، وَلَا طعن فِيمَا اتَّفقُوا عَلَيْهِ طَاعن فَأَسْرعُوا إِلَى بيعَته وَلم يخْتَلف عَن بيعَته من تخلف عَن أبي بكر وَلَا تسخطها متسخط بل اجْتَمعُوا عَلَيْهِ راضين بِهِ محبين لَهُ.

’’اہلِ شوری جو جنت کی بشارت ملنے والے دس صحابہ میں سے باقی رہ جانے والے تھے انہوں نے جمع ہو کر حکمِ الہی و توفیقِ باری تعالی کے مطابق معاملے پر غور کیا، اپنی بہترین رائے کا اور مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کرتے ہوئے مشورہ و اجتہاد کر کے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا، کیوں کہ وہ اُن کے علم و حلم سے باخبر تھے اور ادراک رکھتے تھے کہ اللہ تعالی نے انہیں کئی صفاتِ حمیدہ میں کمال اور کرم واحسان میں سبقت سے نواز رکھا ہے ۔۔۔ جب انہوں نے مشاورت سے انتخاب کر لیا تو کسی ایک نے بھی ان سے اختلاف نہیں کیا اور نہ ہی اُن کی متفقہ رائے پر کسی کو اعتراض ہوا بلکہ سبھی نے بیعت میں جلدی کی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت میں تاخیر کرنے والوں میں سے بھی کوئی پیچھے نہ رہا اور نہ ہی ناراض ہونے والوں میں سے کوئی ناراض ہوا بلکہ سب اُن سے محبت کرتے ہوئے، اپنی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے اُن کی خلافت پر متفق ہو گئے۔‘‘ (الإمامة والرد على الرافضة، صـ ٣٠٠)
⇚امام ابو عثمان صابونی رحمہ اللہ (٤٤٩هـ) فرماتے ہیں:

ثم خلافة عثمان رضي الله عنه بإجماع أهل الشورى وإجماع الأصحاب كافة ورضاهم به حتى جعل الأمر إليه.

’’پھر اہلِ شوری کا اتفاق اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع اور رضامندی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر ہوئی یہاں تک کہ معاملہ اُن کے سپرد کر دیا گیا۔‘‘
(عقيدة السلف وأصحاب الحديث، ضمن مجموعة الرسائل المنيرية: ١/ ١٢٩)

⇚شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨هـ) فرماتے ہیں :

عُثْمَانُ لَمْ يَصِرْ إِمَامًا بِاخْتِيَارِ بَعْضِهِمْ، بَلْ بِمُبَايَعَةِ النَّاسِ لَهُ، وَجَمِيعُ الْمُسْلِمِينَ بَايَعُوا عُثْمَانَ، وَلَمْ يَتَخَلَّفْ عَنْ بَيْعَتِهِ أَحَدٌ.

’’عثمان رضی اللہ عنہ کچھ لوگوں کے اختیار سے خلیفہ نہیں بنے تھے بلکہ سب لوگوں کی بیعت سے بنے، تمام مسلمانوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی اور کوئی بھی پیچھے نہیں رہا تھا۔‘‘
(منهاج السنة النبوية : ١/‏٥٣٢ )

⇚نیز فرماتے ہیں :

لَمْ يَخْتَلِفْ أَحَدٌ فِي خِلَافَةِ عُثْمَانَ، وَلَكِنْ بَقِيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يُشَاوِرُ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَأَخْبَرَ أَنَّ النَّاسَ لَا يَعْدِلُونَ بِعُثْمَانَ، وَأَنَّهُ شَاوَرَ حَتَّى الْعَذَارَى فِي خُدُورِهِنَّ. وَإِنْ كَانَ فِي نَفْسِ أَحَدٍ كَرَاهَةٌ، لَمْ يَنْقُلْ – أَوْ قَالَ – أَحَدٌ شَيْئًا وَلَمْ يُنْقَلْ إِلَيْنَا.
فَمِثْلُ هَذَا قَدْ يَجْرِي فِي مِثْلِ هَذِهِ الْأُمُورِ. وَالْأَمْرُ الَّذِي يَتَشَاوَرُ فِيهِ النَّاسُ لَا بُدَّ فِيهِ مِنْ كَلَامٍ، لَكِنْ لَا يُمْكِنُ الْجَزْمُ بِذَلِكَ بِمُجَرَّدِ الْحَزْرِ. فَلَمَّا عَلِمْنَا نَقْلًا صَحِيحًا أَنَّهُ مَا كَانَ اخْتِلَافٌ فِي وِلَايَةِ عُثْمَانَ، وَلَا أَنَّ طَائِفَةً مِنَ الصَّحَابَةِ قَالَتْ: وَلُّوا عَلِيًّا أَوْ غَيْرَهُ، كَمَا قَالَ بَعْضُ الْأَنْصَارِ: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، وَلَوْ وُجِدَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ لَكَانَ مِمَّا تَتَوَفَّرُ الْهِمَمُ وَالدَّوَاعِي عَلَى نَقْلِهِ، كَمَا نُقِلَ نِزَاعُ بَعْضِ الْأَنْصَارِ فِي خِلَافَةٍ أَبِي بَكْرٍ – فَالْمُدَّعِي لِذَلِكَ مُفْتَرٍ.
وَلِهَذَا قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: «لَمْ يَتَّفِقِ النَّاسُ عَلَى بَيْعَةٍ كَمَا اتَّفَقُوا عَلَى بَيْعَةِ عُثْمَانَ».

’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا، بلکہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تین دن تک لوگوں سے مشاورت کرتے رہے اور انہوں نے بتایا کہ لوگ کسی کو بھی عثمان رضی اللہ عنہ کی جگہ نہیں دیتے، یہاں تک کہ انہوں نے باپردہ جوان لڑکیوں سے بھی رائے لی، اگر کسی کے دل میں بھی ناپسیندگی ہوتی تو ضرور منقول ہو جاتی، حالانکہ اس طرح کے امور میں یہ چیز چلتی رہتی ہے کہ جس معاملے میں مشورہ ہو وہاں کوئی بات ہو ہی جاتی ہے لیکن یوں ہی محض اَندازے اور تُکے سے بالجزم کہنا ناممکن ہے، جبکہ دوسری طرف ہم صحیح خبر کے ذریعے جان چکے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں کوئی اختلاف نہیں ہوا، نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کے کسی گروہ نے یہ کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بناؤ یا کسی اور کو بناؤ، جس طرح کہ (سقیفہ بنی ساعدہ میں) کچھ انصار نے کہا تھا : ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے۔ اگر اس طرح کی کوئی بات ہوتی تو بڑھ چڑھ کر نقل ہوتی جس طرح خلافتِ ابو بکر میں کچھ انصار کا یہ اختلاف نقل ہوا ہے۔ لہذا (خلافتِ عثمان میں اختلاف کا) ایسا دعوی کرنے والا جھوٹا ہے ۔ اسی لیے امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ لوگ کسی کی بھی بیعت پر اس طرح متفق نہیں ہوئے جس طرح عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر متفق ہوئے تھے۔‘‘
(منهاج السنة النبوية : ٦/‏٣٥١)

✿۔ حاصلِ کلام یہی ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا، اُس وقت موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سب آپ سے راضی تھے۔ لہذا بعد والوں کا اُن کی بصیرت و دور اندیشی اور خلافت کی اہلیت پر سوال اٹھانا بالکل لغویات وفضول یاواگوئی کے قبیل سے ہے۔ واللہ أعلم.

حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ

یہ بھی پڑھیں: مسلک محدثین کے اکابر میڈیا میں متعارف کیوں نہیں؟