سوال (4348)
کپڑوں میں خون لگا ہے، کیا نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب
جسم سے نکلنے والا عام خون نجس نہیں، صحابی کو تیر لگا، جس سے خون بہنے لگا لیکن پھر بھی انہوں نے نماز جاری رکھی۔ [ابوداؤد: 198، سندہ،حسن]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خون نجس نہیں کیونکہ نجاست جسم کو لگے تو نماز باطل ہو جاتی ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شرم گاہ کے علاوہ جسم کے کسی حصہ سے خون نکلنا یہ نواقض وضو میں شامل نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ
خون نجس ہوتا ہے، اس پر سلف وخلف کے تمام علماء کا اجماع ہے۔ اس کی طہارت کا موقف نیا ہے، اس لیے اگر خون زیادہ ہے تو اسے لازما دھوئیں گے، الا یہ کہ مجبوری ہو، جیسے خون مسلسل جاری ہو، جیسے بعض صحابہ کو تیر وغیرہ لگا تو انہوں نے نماز جاری رکھی یا اسی طرح نماز پڑھی۔ یا جنگ وغیرہ ہو کہ وہاں خون دھونا ممکن نہ ہو تو بھی استثنائی حالت ہے، جیسا کہ ہمیشہ سے مسلمان مجاہدین کرتے چلے آ رہے ہیں یا خون بالکل معمولی ہو جیسا کہ پھنسی پھوڑے سے ایک آدھ قطرہ نکل آتا ہے۔
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
غير متفق تماما
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
فضیلۃ الباحث ابرار احمد حفظہ اللہ
سائل: دعویٰ اجماع پر دلیل بیان فرمائیں۔
جواب: بارك الله فيكم…
ہمارے علم کے مطابق تو 1200 ہجری سے قبل کی کوئی بھی شرح، تفسیر یا فقہ کی کتاب میں یہ مسئلہ دیکھا جائے، تو علماء مسلمین کے ہاں قولا واحد دم كثير نجس ہی بیان ہوتا رہا ہے۔ اہل حدیث، حنبلی، شافعی، مالکی، حنفی، حتی کہ ظاہری بھی سب متفق تھے۔
اگر کسی عالم کی “صراحت” مخالفت میں مل جائے تو بہت مفید رہے گی۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ (1250ھ) نے سب سے پہلے اس موقف کی صراحت کی ہے۔ پھر اس کے بعد بعض اہلِ علم نے اسے بعض متقدمین ائمہ کی عبارات سے ان کی طرف اس موقف کو منسوب کرنے کی ضرورت محسوس کی،…
ورنہ یہ اصلا معتزلہ کا موقف ہے۔
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
“والإجماع لا بد له من مستند” وہ بیان فرما دیں۔
فضیلۃ الباحث ابرار احمد حفظہ اللہ
مذکورہ حوالہ جات کی طرف مراجعت کر لیں۔ أخي الكريم…
الدلائل عليها متظاهرة كما قال النووي. ولا تظنن أن كافة أئمة المسلمين على مر القرون أخذوا القول بلا مستند.
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
مستند کا اس لیے کہا کہ بھائی جان یک دم سے نجاستِ دم والے موقف کو 1200 سال بعد کی ایجاد کہہ دیا۔ جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب اور ان کے خاص اسلوب سے واقفیت کی بنا پر یہ بات واضح ہوتی کہ وہ خود بھی نجاستِ دم کے قائل نہیں تھے اور اسکے دلائل کی طرف اشارہ بھی کیا ہے آپ رحمہ اللہ نے، مزید یہ بھی کہ دنیا میں بہت سے ایسے اجماع ہیں، جو صرف دعوی ہی ہیں انکی پشت پر دلیل کوئی نہیں ہے۔ کما لا یخفی علی من یسعی
فضیلۃ الباحث ابرار احمد حفظہ اللہ
پیارے بھائی وہی بات، جب یہ موقف اپنایا گیا تو متقدمین میں امام بخاری رحمہ اللہ کے اسلوب و تبویب کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کر لی گئی، ورنہ یہ جتنے اجماع نقل کرنے والے ہیں، جن میں ظاہری عالم ابن حزم بھی ہیں، انہیں تبویب بخاری سمجھ نہیں آئی… (ابتسامہ)
دوسرا: یہ کسی ایک آدھ عالم کا نقل کردہ اجماع نہیں کہ ایویں دبا ہوا اجماع ہو، صدیوں تک علماء کے ہاں متداول رہا ہے، اوپر ملف بھیجی ہے۔ جس میں صرف اجماع والے علماء ذکر کیے گئے ہیں۔ ورنہ عام موقف اختیار کریں تو گنتی بھول جانی ہے۔ إن شاء اللہ۔
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
چلیں آپ نے امام بخاری رحمہ اللہ تو 1200 کے بعد کے نہیں ہیں نا، اس سے آپکا یہ دعوہ تو جاتا رہا نا کہ یہ 1200 سال بعد کا موقف ہے، امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کو سمجھنے کیلئے ” باب من لم یر الوضوء الا من المخرجین ۔۔۔” مع الشرح مطالعہ فرمالیں ۔۔۔۔۔۔
انکو موقف کو ہم اپنے حق میں موڑ رہے ہیں یا آپ نرے دعوہ اجماع پر ٹیک لگائے کھڑے ہیں، واضح ہوجائے گا۔
فضیلۃ الباحث ابرار احمد حفظہ اللہ
معتبر سنی عالم کی طرف سے اجماع کا دعوی ہی اجماع ہوتا ہے، جب تک اس کے خلاف ثابت نہ ہو جائے۔ اس لیے أصحاب السعي کو إجماع کے درپے ہونے کی بجائے اس کا مخالف ڈھونڈنا چاہیے۔
فضیلۃ الباحث عبد العزیز ناصر حفظہ اللہ
غیر متفق تماما
ابن عبدالبر رحمہ اللہ معتبر سنی عالم ہیں؟
فضیلۃ الباحث ابرار احمد حفظہ اللہ
امام احمد رحمہ اللہ۔۔۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ موقف ہے ہی نہیں۔
پہلے عرض کر دیا کہ یہ پہلے موقف بنایا گیا پھر امام بخاری کو بیچ میں لے آئے۔
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
یہ صرف اپکی رائے ہے۔
فضیلۃ الباحث ابرار احمد حفظہ اللہ
انتہائی معتبر۔ رحمه الله تعالى
فضیلۃ الباحث عبد العزیز ناصر حفظہ اللہ
سب سے پہلے آپ یہ بیان فرما دیں کہ ” اجماع کے منکر کا کیا حکم ہے” ؟
انھوں نے کبیرہ گناہوں کی بغیر توبہ پر معافی نہ ہونے پر اجماع کا دعوی کیا ہے؟ کیا انکے اسی دعوی کو لیا جائے گا؟ کیا انکے دعوی کے خلاف موقف اپنانا غلط ہوگا؟
فضیلۃ الباحث ابرار احمد حفظہ اللہ
امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بالکل واضح ہے کہ مخرجین کے علاوہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ یہ بالکل الگ مسئلہ ہے۔ اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ سبیلین کے علاوہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ جبکہ باب غسل الدم میں نجاست کی طرف اشارہ ہی ہے۔ الٹا یہ صرف آپ کی رائے ہے… سبحان اللہ…
پوری امت کے خلاف آپ کھڑے ہیں اور یہ رائے صرف ہماری ہے… (ابتسامہ)
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
پیارے بھائی ایک دفعہ انکے اس باب کے تحت دیے گۓ دلائل کو دیکھ لیں، کیا آپ رحمہ اللہ نے صرف سبیلین سے خون نکلنے کے متعلق دلائل پیش فرماۓ ہیں؟
فضیلۃ الباحث ابرار احمد حفظہ اللہ
جی… اُن آثار سے مسئلہ یہی ثابت کیا ہے جو اوپر باب ہے۔
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
کیا اس میں صرف سبیلین سے خون نکلنے کے متعلق دلائل ہیں؟ ان دلائل کو مہربانی فرما کر یہاں نشر کردیں تاکہ قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔
فضیلۃ الباحث ابرار احمد حفظہ اللہ
مطلب امام بخاری رحمہ اللہ باب اور قائم کرتے ہیں اور دلائل کسی اور چیز کے لاتے ہیں؟
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
معلوم بالضرورة إجماع کا منکر کافر ہے، دیگر إجماعات کی حجیت کا منکر بدعتی ہے، اور کسی مسئلہ پر اجماع کا منکر مخطئ بھی ہو سکتا ہے مصیب بھی۔ کفر و بدعت کا معاملہ نہیں۔
فضیلۃ الباحث عبد العزیز ناصر حفظہ اللہ
پورا جواب نہیں ہے.
فضیلۃ الباحث عبد العزیز ناصر حفظہ اللہ
پہلے حصے کا جواب ہے۔
فضیلۃ الباحث عبد العزیز ناصر حفظہ اللہ