سوال (6381)
کھڑے ہو کر جوتا پہننا کیسا ہے؟
جواب
بعض روایات میں کھڑے ہو کر جوتا پہننے سے منع کیا گیا ہے، بعض روایات اثبات کرتی ہیں، یہ جو نہی ہے، یہ تنزیہی ہے، حرام اور حرمت نہیں ہے، یعنی نہی تحریمی نہیں ہے، کیونکہ دوسری روایات موجود ہیں، دونوں طریقے سے صحیح ہے، یہ جماعت المسلمین نے دعویٰ کیا ہے کہ بیٹھ کر ہی پہننا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
کھڑے ہو کر جوتا پہننا جائز ہے البتہ اگر کھڑے ہو کر پہننے میں دشواری ہو تو بیٹھ کر جوتا پہننا زیادہ بہتر ہے۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ، ﻋﻦ اﻷﻋﻤﺶ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻗﺎﻝ: ﻧﻬﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻥ ينتعل اﻟﺮﺟﻞ ﻗﺎﺋﻤﺎ، سنن ابن ماجہ:(3618)
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪاﻟﻠﻪ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺪ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺟﻌﻔﺮ اﻟﺮاﺯﻱ، ﻋﻦ ﻫﺸﺎﻡ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ،
ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻧﻪ ﻧﻬﻰ ﺃﻥ ينتعل اﻟﺮﺟﻞ ﻗﺎﺋﻤﺎ، المخلصيات :1/ 222 ،223
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة أنه كره أن ينتعل الرجل قائمًا، مصنف ابن أبي شيبة:(26554)
ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻫﻤﺎﻡ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻛﺎﻥ ﻳﻜﺮﻩ ﺃﻥ ﻳﻨﺘﻌﻞ ﻗﺎﺋﻤﺎ ﻭﺃﻥ ﻳﺄﺗﺰﺭ ﻓﻮﻕ ﻗﻤﻴﺼﻪ، الطبقات الكبرى لابن سعد:4/ 249
تنبیہ: امام عقیلی، امام ترمذی، امام بخاری کے کلام کا تعلق اس طریق کو ضعیف کہنا ہے جس میں حارث بن نبھان ہے۔
ﻋﻤﺎﺭ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻤﺎﺭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ کے طریق سے یہ روایت اور حارث بن نبھان کی دیگر روایات نقل کرنے کے بعد امام عقیلی نے کہا:
ﻛﻞ ﻫﺬﻩ اﻷﺣﺎﺩﻳﺚ ﻻ ﻳﺘﺎﺑﻊ ﻋﻠﻴﻬﺎ، ﺃﺳﺎﻧﻴﺪﻫﺎ ﻣﻨﺎﻛﻴﺮ ﻭاﻟﻤﺘﻮﻥ ﻣﻌﺮﻭﻓﺔ ﺑﻐﻴﺮ ﻫﺬﻩ اﻷﺳﺎﻧﻴﺪ
الضعفاء الكبير للعقيلى:1/ 217
امام ترمذی اور امام بخاری دونوں کا کلام ہے۔
ملاحظہ کریں:
امام ترمذی نے کہا:
ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﻏﺮﻳﺐ ﻭﺭﻭﻯ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ اﻟﺮﻗﻲ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﻗﺘﺎﺩﺓ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﻭﻛﻼ اﻟﺤﺪﻳﺜﻴﻦ ﻻ ﻳﺼﺢ ﻋﻨﺪ ﺃﻫﻞ اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻭاﻟﺤﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﻧﺒﻬﺎﻥ ﻟﻴﺲ ﻋﻨﺪﻫﻢ ﺑﺎﻟﺤﺎﻓﻆ، ﻭﻻ ﻧﻌﺮﻑ ﻟﺤﺪﻳﺚ ﻗﺘﺎﺩﺓ ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺃﺻﻼ. سنن ترمذی: (1775)
امام ترمذی نے حدیث انس کے تحت کہا:
ﻭﻗﺎﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ: ﻭﻻ ﻳﺼﺢ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻭﻻ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﻋﻤﺎﺭ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻤﺎﺭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ. سنن ترمذی: (1776)
پھر حدیث أبی ھریرہ رضی الله عنہ کے مرفوع و موقوف ہونے میں اختلاف ہے اور راجح اس کا موقوف ہونا ہی ہے۔
امام دارقطنی کی العلل سے تفصیل ملاحظہ کریں:
ﻭﺳﺌﻞ ﻋﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻛﺮﻩ ﺃﻥ ﻳﻨﺘﻌﻞ اﻟﺮﺟﻞ ﻗﺎﺋﻤﺎ.
ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺮﻭﻳﻪ اﻷﻋﻤﺶ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ، ﻭاﺧﺘﻠﻒ ﻋﻨﻪ؛
ﻓﺮﻭاﻩ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺪ ﻭﻫﻮ اﻟﺮﺅاﺳﻲ، ﻋﻦ اﻷﻋﻤﺶ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻭﺷﻚ ﻓﻲ ﺭﻓﻌﻪ.ﻭﻭﻗﻔﻪ ﺃﺑﻮ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻋﻦ اﻷﻋﻤﺶ.
ﻭاﻟﺼﺤﻴﺢ: ﻣﻮﻗﻮﻑ. العلل للدارقطني: (1909)10/ 122
تو یہ روایت موقوفا صحیح ہے جیسا کہ اوپر سند ومتن کے ساتھ نقل کی جا چکی ہے۔
امام احمد بن حنبل سے ان کے بیٹے امام عبد الله نے پوچھا
ﺃﻳﻤﺎ ﺃﺛﺒﺖ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻷﻋﻤﺶ ﻓﻘﺎﻝ ﺳﻔﻴﺎﻥ اﻟﺜﻮﺭﻱ ﺃﺣﺒﻬﻢ ﺇﻟﻲ ﻗﻠﺖ ﻟﻪ ﺛﻢ ﻣﻦ ﻓﻘﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻓﻲ اﻟﻜﺜﺮﺓ ﻭاﻟﻌﻠﻢ ﻳﻌﻨﻲ ﻋﺎﻟﻤﺎ ﺑﺎﻷﻋﻤﺶ، العلل ومعرفة الرجال برواية عبدالله بن أحمد: (2543)2/ 348
اس کے علاوہ بھی ادلہ ہیں ابو معاویہ کے اصحاب اعمش میں ثوری کے علاوہ احفظ واثبت ہونے کے اور اعمش عن أبی صالح روایت متصل اور صحیح السماع ہے۔
حافظ ذہبی نے کہا:
ﻭﻣﺘﻰ ﻗﺎﻝ ﻋﻦ ﺗﻄﺮﻕ ﺇﻟﻰ اﺣﺘﻤﺎﻝ اﻟﺘﺪﻟﻴﺲ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺷﻴﻮﺥ ﻟﻪ ﺃﻛﺜﺮ ﻋﻨﻬﻢ: ﻛﺈﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﻭاﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻭاﺋﻞ، ﻭﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ اﻟﺴﻤﺎﻥ، ﻓﺈﻥ ﺭﻭاﻳﺘﻪ ﻋﻦ ﻫﺬا اﻟﺼﻨﻒ ﻣﺤﻤﻮﻟﺔ ﻋﻠﻰ اﻻﺗﺼﺎﻝ. ميزان الإعتدال: (3517)
حافظ ذہبی جیسے ناقد کی یہ تصریح دلیل ہے کہ امام اعمش کی ان اپنے شیوخ سے روایت سماع واتصال پر محمول ہے اگرچہ معنعن ہی ہو۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭﻛﻴﻊ، ﻋﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺩﻳﻨﺎﺭ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻗﺎﻝ: ﻧﻬﻰ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻥ ينتعل اﻟﺮﺟﻞ ﻗﺎﺋﻤﺎ، سنن ابن ماجہ: (3619) سنده حسن لذاته
امام سفیان ثوری امیر المومنین فی الحدیث تھے اور اپنی روایت کو خوب جانتے اور ان کے حافظ تھے
حتی کہ آپ امام مالک پر مقدم تھے۔
مختصر تخریج وتحقیق کے بعد عرض ہے کہ
جن روایات میں ممانعت آئی ہے وہ اکثر تو ضعیف ہیں اور جو بعض ثابت ہیں وہ مکروہ تحریمی پر مشتمل نہیں ہیں بلکہ مکروہ تنزیہی پر مشتمل ہیں۔
کھڑے ہو کر جوتا پہننے کے جواز پر ایک مرفوع روایت آثار سلف صالحین
اور ممانعت سے کیا مراد ہے اسے ملاحظہ کریں۔
ﻗﺎﻝ ﻣﺴﺪﺩ: ﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ، ﻋﻦ ﺣﺴﻴﻦ اﻟﻤﻌﻠﻢ، ﻋﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺷﻌﻴﺐ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻋﻦ ﺟﺪﻩ ﻗﺎﻝ: “ﺭﺃﻳﺖ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺸﺮﺏ ﻗﺎﺋﻤﺎ ﻭﻗﺎﻋﺪا، ﻭﻳﻨﺼﺮﻑ ﻋﻦ ﻳﻤﻴﻨﻪ ﻭﻋﻦ ﻳﺴﺎﺭﻩ، ﻭﻳﺼﻮﻡ ﻓﻲ اﻟﺴﻔﺮ ﻭﻳﻔﻄﺮ، ﻭﻳﺼﻠﻲ ﺣﺎﻓﻴﺎ ﻭﻣﻨﺘﻌﻼ، ﻭﻳﻨﺘﻌﻞ ﻗﺎﺋﻤﺎ ﻭﻗﺎﻋﺪا،
مسند مسدد/ إتحاف الخيرة المهرة :(3702)4/ 338 سنده حسن لذاته
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا معاذ بن معاذ عن ابن عون قال: ذكر عند محمد( هو ابن سيرين) انتعال الرجل قائمًا، قال: لا أعلم به بأسًا، مصنف ابن أبي شيبة :(26549) صحيح
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺳﻴﺮﻳﻦ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻻ ﻳﺮﻯ ﺑﺄﺳﺎ ﺃﻥ ﻳﻨﺘﻌﻞ اﻟﺮﺟﻞ ﻭﻫﻮ ﻗﺎﺋﻢ، جامع معمر بن راشد:(20219) صحيح
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا عبيد اللَّه بن موسى عن عقبة ( هو ابن أبي صالح )قال: رأيت إبراهيم( هو النخعي ) يدخل رجليه في نعليه وهو قائم،
مصنف ابن أبي شيبة:(26550) سنه حسن لذاته فلأثر صحيح
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا وكيع عن سفيان عن الأعمش قال: رأيت يحيى بن وثاب ينتعل قائمًا،
مصنف ابن أبي شيبة:(26551) صحیح
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا حفص عن عمرو( هو ابن مروان أبو العنبس) قال: رأيت الحسن ينتعل قائمًا، مصنف ابن أبي شيبة :(26552) حسن
جن روایات میں ممانعت آئی ہے وہ مکروہ تحریمی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ مکروہ تنزیہی پر مشتمل ہے۔
حافظ خطابی حدیث جابر رضی الله عنہ کے بعد کہتے ہیں:
ﻳﺸﺒﻪ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﺇﻧﻤﺎ ﻧﻬﻰ ﻋﻦ ﻟﺒﺲ اﻟﻨﻌﻞ ﻗﺎﺋﻤﺎ ﻷﻥ ﻟﺒﺴﻬﺎ ﻗﺎﻋﺪا ﺃﺳﻬﻞ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺃﻣﻜﻦ ﻟﻪ ﻭﺭﺑﻤﺎ ﻛﺎﻥ ﺫﻟﻚ ﺳﺒﺒﺎ ﻻﻧﻘﻼﺑﻪ ﺇﺫا ﻟﺒﺴﻬﺎ ﻗﺎﺋﻤﺎ ﻓﺄﻣﺮ ﺑﺎﻟﻘﻌﻮﺩ ﻟﻪ ﻭاﻻﺳﺘﻌﺎﻧﺔ ﺑﺎﻟﻴﺪ ﻟﻴﺄﻣﻦ ﻏﺎﺋﻠﺘﻪ ﻭاﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ۔
معالم السنن:4/ 203، عون المعبود:11/ 131
شیخ ابن عثیمین رحمة الله عليه کہتے ہیں:
ﺃﻣﺎ ﺣﺪﻳﺚ ﺟﺎﺑﺮ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ اﻟﺬﻱ ﺭﻭاﻩ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﻬﻰ ﺃﻥ ﻳﻧﺘﻌﻞ اﻟﺮﺟﻞ ﻗﺎﺋﻤﺎ ﻓﻬﺬا ﻓﻲ ﻧﻌﻞ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻰ ﻣﻌﺎﻟﺠﺔ ﻓﻲ ﺇﺩﺧﺎﻟﻪ ﻓﻲ اﻟﺮﺟﻞ ﻷﻥ اﻹﻧﺴﺎﻥ ﻟﻮ اﻧﺘﻌﻞ ﻗﺎﺋﻤﺎ ﻭاﻟﻨﻌﻞ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻰ ﻣﻌﺎﻟﺠﺔ ﻓﺮﺑﻤﺎ ﻳﺴﻘﻂ ﺇﺫا ﺭﻓﻊ ﺭﺟﻠﻪ ﻟﻴﺼﻠﺢ اﻟﻨﻌﻞ ﺃﻣﺎ اﻟﻨﻌﺎﻝ اﻟﻤﻌﺮﻭﻓﺔ اﻵﻥ ﻓﻼ ﺑﺄﺱ ﺃﻥ ﻳﻧﺘﻌﻞ اﻹﻧﺴﺎﻥ ﻭﻫﻮ ﻗﺎﺋﻢ ﻭﻻ ﻳﺪﺧﻞ ﺫﻟﻚ ﻓﻲ اﻟﻨﻬﻲ ﻷﻥ ﻧﻌﺎﻟﻨﺎ اﻟﻤﻮﺟﻮﺩﺓ ﻳﺴﻬﻞ ﺧﻠﻌﻬﺎ ﻭﻟﺒﺴﻬﺎ ﻭاﻟﻠﻪ اﻟﻤﻮﻓﻖ، شرح رياض الصالحين:6/ 388
شرح سنن أبي داود لابن رسلان: 16/ 429 (4135) میں ہے۔
(قال: نهى رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وسلم أن ينتعل الرجل قائمًا) الظاهر أن هذا أمر إرشاد؛ لأن لبسها قاعدًا أسهل له وأمكن، وربما كان القيام سببًا لانقلابه وسقوطه فأمر بالقعود له والاستعانة باليد فيه ليأمن غائلته، ويحتمل أن يختص هذا النهي بما في لبسه قائمًا تعب كالتاسومة التي يحتاج لابسها إلى وضع سيرها إلى أصبع الرجل، والوطاء الذي له شرج كالخف وما في معناه، وأما لبس القبقاب والسرموجة والوطاء الذي ليس له ساق فلا يدخل في هذا النهي لسهولة لبسه وسرعته بلا تعب، والأخذ بعموم الحديث على ظاهره أحوط؛ لإطلاق الحديث،
امام یحیی بن أبی کثیر کی توضیح:
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ، ﻗﺎﻝ: ﺇﻧﻤﺎ ﻳﻜﺮﻩ ﺃﻥ ﻳﻨﺘﻌﻞ اﻟﺮﺟﻞ ﻗﺎﺋﻤﺎ ﻣﻦ ﺃﺟﻞ اﻟﻌﻨﺖ(أي الضرر) جامع معمر بن راشد: (20218)، شعب الإيمان للبيهقى: (5866) صحيح
اس تفصیل وتوضیح سے معلوم ہوا کہ کھڑے ہو کر جوتا پہننا جائز ہے اور ممانعت سے مراد مکروہ تنزیہی ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ




