ان لوگوں میں سے ایک اسحاق بھٹی مرحوم ہیں،جن کو یاد کرکے میرے ذہن میں تارے سے جگمگا اٹھتے ہیں۔ اب احساس ہوتا ہے کہ اسحاق بھٹی خدا کی نشانیوں میں سے ایک یادگار نشانی تھے۔ ان لوگوں میں سے ایک جن کی صلاحیت دیکھ کے آدمی خدا کی عطا پر دنگ رہ جاتا ہے۔ اسحاق بھٹی ایک مولوی تھے اور دراصل مولوی بھی نہیں۔ یعنی مدرسے سے پڑھے تھے مگر مسجد کے خطیب و امام نہ تھے اور نہ وضع قطع خالص مولویانہ تھی۔ سادہ اطوار ایسے تھے کہ بڑھے بوڑھوں میں بیٹھے ہوں تو محلے کے اک عام فرد لگیں۔ دو چیزیں مگر اس سادہ شخص کو وہ عطا ہوئی تھیں کہ زمانے تک یاد رکھی جائیں گی۔

بہت عرصہ ادارہ ثقافت اسلامیہ سے بطور ریسرچر وابستہ رہے اور یہیں سے وسیع المشربی اور طبیعت میں توسع پیدا ہوگیا۔ مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے کہنے پر قومی ڈائجسٹ کیلئے خاکے لکھنے شروع کئے تو ان کا اصل کمال ظاہر ہونے لگا۔ حافظہ ان کا یوں تھا کہ گویا ماضی ہاتھ کی لکیریں ہوں۔ واقعات سن و سنین اور کیفیات سمیت یاد تھے۔ یوں لکھتے گویا ویڈیو گرافی کر رہے ہوں۔ شخصیات کو گویا آپ کے خاکوں میں چلتا پھرتا، ہنسنا روتا اور زندگی جیتا دیکھ لیا جاتا۔ اسلوب ایسا کہ میرزا ادیب تک کو تحسین کرنا پڑی۔انھوں نے زیادہ تر علم دوست شخصیات پر لکھا اور یوں اردو زبان کو اک نئے سرمائے سے آشنا کیا۔ اپنی زیست کتھا بھی لکھی۔ عنوان ہے، گزر گئی گزران۔ پڑھ کے آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ ایسا سادہ تناظر آدمی بھی ایسا علم دوست اور ادب نواز ہو سکتا ہے۔ معلومات،شگفتگی ، تہذیب اور ثقافت ان کے خاکوں میں اس آسانی سے آتے جیسے،مہتاب سے روشنی۔ میں اہل علم و صحافت کو ان کی قدر کرتے دیکھتا تو ان کی عظمت کا احساس ہوتا۔

بھارتی صدر گیانی ذیل سنگھ ان کے لنگوٹیے دوست تھے۔ ابوالکلام سے لیکر داؤد غزنوی پر انھوں نے اپنی ذاتی ملاقات و تعلقات پر مبنی خاکے لکھے اور مولانا محی الدین لکھوی پر کامل کتاب۔ صوفی عبداللہ پر لکھی ان کی کتاب کے متعلق ہارون الرشید نے اپنے کالم میں لکھا، ساری رات اس کتاب نے سونے نہ دیا۔ سحر دم کتاب مکمل ہوئی تو ہاتھ نے کتاب چھوڑی۔ جتنا کام وہ کر گئے،یہاں ادارے ویسا اور اتنا کام کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ممتاز صحافی رانا شفیق پسروری اور ممتاز ماہر تعلیم رانا تنویر قاسم کو میں ان کا قدر دان پاتا۔ ابو بکر قدوسی نے اپنے مکتبہ سے ان کی متعدد کتب شائع کیں۔ روزنامہ 92 کے چیف ایڈیٹر ارشاد عارف کے صاحب اسلوب برادر صاحبزادہ خورشید گیلانی نے بڑی منفرد کتاب رشک زمانہ میں اسحاق بھٹی کو بڑا شاندار خراج تحسین پیش کیا۔ اللہ تعالٰی انھیں غریق رحمت فرمائے ، ایسے لوگ روز روز بھلا کب زمانے کے چہرے پر نمودار ہوتے ہیں۔

یوسف سراج