میری اس تحریر کا مقصد صرف اتنا ہے جو غلطیاں غرور وتکبر میں مجھ سے ہوئی ہیں وہ آپ نہ کریں۔
اور یہ کوئی کہانی نہیں ایک ایک بات سچ پر مبنی ہے ۔میں ایک جاب ہولڈر خاتون ہوں۔ الحمدللہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں گریڈ 18 کی ملازم ہوں۔ بدقسمتی سے دو بچوں کی ماں اور خلع یافتہ ہوں۔
عورت ہمیشہ جذباتی ہوتی ہے جذبات میں آکر فیصلہ کر لیتی ہے جو کہ نہیں کرنا چاہیے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ 37 میری عمر ہے 28 سال کی عمر میں میری شادی ہوئی تھی میری شادی اپنی فیملی میں ہوئی تھی میرے ہسبینڈ بھی ایک گورنمنٹ جاب ہولڈر تھے۔ گریڈ 15 میں ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں وہ جاب کرتے تھے۔ میری پہلی اولاد میں ایک بیٹا تھا۔ بیٹے کی پیدائش تک ہم جوائنٹ فیملی میں رہے اور اچھا وقت گزرا اب میں ویسے جھوٹ کیوں بولوں کے جوائنٹ فیملی میں مجھے کوئی مسئلہ تھا یا کبھی ہوا بہت اچھے تھے۔ مگر مجھے جوائنٹ فیملی میں رہنے کا دل نہیں کرتا تھا۔
میں نے اپنے خاوند سے کہا ہم اپنا گھر بناتے ہیں اور الگ ہو جاتے ہیں ہم دونوں کی سیلری اتنی تو ہے کہ ہم ایک سال میں اپنا گھر بنا ہی لیں گے اور گاڑی بیچنی پڑے تو بیچ کر پہلے گھر بناتے ہیں پھر گاڑی لے لیں گے۔ وہ اس بات پر تیار ہو گے۔ میرے پاس جو پیسے تھے میں نے پلاٹ لے لیا اور ایسے ہی ہم نے ایک سال کے اندر دونوں نے مل کر اپنا گھر بنا لیا۔ میری سیلری میرے ہسبینڈ سے ذیادہ تھی ۔گھر بن گیا ہم الگ ہو گے۔ الگ ہونے کے بعد گھر میں چھوٹے موٹے مسلے تو ہوتے ہیں ہر گھر میں ہوتے ہیں مگر سچ بولوں تو مجھے اپنی نوکری پر بڑا غرور تھا اور میں اپنی نوکری کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھی تھی جو کہ میری لائف کی سب سے بڑی بیوقوفی تھی جو آج مجھے سمجھ آ رہی ہے۔
پھر میری بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ یہاں ایک بات یاد رکھنا عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہوتی ہے مرد اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنی ایک عورت عورت کو پہنچاتی ہے۔ گھر جو ہم نے بنانا تھا اسمیں ذیادہ پیسے میرے لگے تھے اور وہی غرور وتکبر گھر میں کوئی بھی بات ہوتی تو میں بات بات پر یہی طعنہ دے دیتی کہ گھر میں میرے پیسے ذیادہ ہیں تمہارا کیا ہے؟
بس پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہی میری کزن جسکا آنا جانا ذیادہ تھا اسنے مجھے ورعلانہ شروع کر دیا کہ تم اس سے ذیادہ سیلری لیتی ہو وہ کم لیتا ہے ایسے ہی کہانیاں اسنے شروع کر دیں میرے دل میں انکے لئے نفرت پیدا کرتی رہی اس قدر اسنے زہر گھولا کہ میں اپنے بچوں تک کو بھول گئی یہ بھی بھول گئی کہ میرے تو دو بچے بھی ہیں۔ لڑائی جھگڑے بڑھتے گے ہم نے گاڑی لی تھی اسمیں بھی میرے پیسے ذیادہ تھے ۔بدقسمتی میری کہ میں نے اپنے خاوند کو ایک دن کہہ دیا کہ یا تو آپ مجھے گاڑی کے پیسے واپس کریں یا پھر آج کے بعد آپ گاڑی استعمال نہیں کرینگے۔
یہ بات میرے لئے تو معمولی تھی مگر انکے لئے تو نہیں ہوئی ہو گی کیونکہ میرے اندر زہر ہی اتنا گھول دیا گیا تھا ۔انہوں نے گاڑی بیچ دی اور میرے پیسے مجھے دے دیے میرے جو خاوند تھے انکے بڑے بھائی کینیڈا میں ہوتے ہیں۔ وہ گھر آئے تین ماں رہے اور واپسی جاتے انہوں نے گاڑی اپنی بھائی کو دے دی۔
وہ کافی مہنگی گاڑی تھی مجھ سے نہ برداشت ہوئی تو میں نے ایک دن مطالبہ کر دیا کہ گھر میں میرے جو پیسے لگے ہیں مجھے واپس کرو ( اور یہاں پر ایک اٹل حقیقت) وہ یہ کہ یہ سب کچھ میں اس لیے واپس لے رہی تھی کہ میں اپنی اس کزن کی باتوں میں آ کر خلع کا فیصلہ کر چکی تھی اللہ اسکو بھی ہدایت دے مگر جو ایسے کسی کا گھر برباد کرتا ہے خدا اسے بھی کبھی خوش رہنے نہیں دیتا خوش وہ بھی آج نہیں۔
انہوں نے وہ گاڑی بیچی اور مجھے میرے پیسے واپس کر دیئے باقی جو پیسے بچے تھے انہوں نے نوکری چھوڑ دی اور ان پیسوں سے اپنا بزنس شروع کر دیا۔ ایک ہوٹل اوپن کیا تھا آج انکے پاس اپنے ذاتی تین ہوٹل ہیں اور میں غرور وتکبر میں ڈھوبی ہوئی عورت نفسیاتی مریض بن چکی ہوں۔
جب وہ پیسے مجھے مل گے میں نے طلاق کا مطالبہ کر دیا انہوں نے اور میرے گھر والوں نے مجھے تب بہت سمجھایا مگر میری عقل پر پردہ پڑ چکا تھا نہ سمجھی کیونکہ میری جو کزن ہے میں اس کے پیچھے لگی ہوئی تھی۔ اب یہاں اگر مزید سچ لکھوں تو مجھ سے ہونے والی غلطیاں مجھے خود ایک عورت ذات کی توہیں لگتی ہیں۔
بہرحال میں اپنی کزن کی باتوں میں آ گئ اسکا جو دیور تھا اسکی پہلی بیوی فوت ہو چکی تھی اسکی ایک بیٹی بھی تھی اور وہ آرمی میں میجر تھا میں بھی ذیادہ کی لالچ میں اور بڑے عہدوں کی لالچ میں اسکی باتوں میں آ گئی اور طلاق لے لی۔ میری زندگی کی دوسری سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ طلاق کے ساتھ انہوں نے ایک شرط رکھ کر دی تھی کہ میں بچے تمہیں نہیں دوں گا۔ میں نے اس شرط کو قبول کیا اور طلاق لے لی۔
عدت پوری ہونے کے بعد میری کزن نے اپنے دیور کے ساتھ شادی کروا دی۔ میں چار ماہ وہاں رہی۔ نوکری بھی کرتی۔ سارے پیسے وہ میرے سسرال والے لے لیتے۔ ان کا گھر بہت بڑا تھا مگر کوئی سکون نہیں تھا۔ ہر وقت ٹارچر ہی کرتے رہتے تھے۔ اپنے بچوں کو چھوڑ کر اسکی بچی کو سنبھالتی، صبح سکول جاتی تو بچی کو ساتھ لے کر جاتی۔ انکے گھر میں بڑی بڑی گاڑیاں ڈرائیور سب کچھ مگر میں رکشے پر آتی جاتی۔
اور وہ میری کزن جسکی میں نے ہر بات مانی وہاں میرے ساتھ اسکا رویہ ایسے ہو گیا تھا جیسے میں کوئی اسکی دشمن ہوں۔ وقت گزرتا گیا میں نوکری کو اپنا سہارا سمجھتی تھی۔ 11 ماہ وہاں رہی اپنی سیلری سے مجھے دس ہزار مہینے کا ملتا تھا کہ یہی تمہارا جیب خرچ ہے۔ 11 ماہ کے بعد پتہ چلا کہ اس نے پہلے ہی سے اسلام آباد شادی کر رکھی ہے۔
وہاں میں نے یہ رشتہ بہت نبھانے کی کوشش کی اور یہ تحیہ کر لیا تھا کہ اب کچھ بھی ہو یہاں سے نہیں جانا مگر وہ بار بار کہتا جاؤ میری طرف سے تم آزاد ہو بار بار ٹارچر کرتا کہ کسی طرح میں طلاق کا مطالبہ کروں۔ ماں باپ تو ماں پاب ہوتے ہیں۔ ایک دن ابو نے مجھے کہا کہ کوئی بات نہیں تم واپس آ جاؤ گھر، وہاں ایسے اذیت بھری زندگی نہ گزارو۔ وہاں سے بھی طلاق ہو گئی واپس آ گئی امی ابو کے پاس۔ ابھی دو ماہ پہلے میرے ابو کی وفات ہو گئی وہی میرا سہارا تھے بھائی چار میں سب شادی شدہ انکی اپنی زندگی ہے اپنے بچے۔ اب میری حالت یہ ہے سیلری تو میں لیتی ہوں وہ جاب جس پر مجھے بڑا غرور تھا۔ مجھے کوئی سہارا نظر نہیں آتا۔ پیسے تو آتے ہیں مگر لگاؤں کہاں ؟
میں نے یہ تحریر اس لیے کہ لکھی بہت دکھی تھی۔ آج امی کے اسرار پر مجھے میرے بچوں سے ملوایا گیا میں نے انکو گاڑیاں اور کچھ کھولنے لے کر دئے انکے باپ نے ابھی کچھ دیر پہلے اپنے چھوٹے کے ہاتھ واپس لوٹا دئے۔ میرے بچے اپنی دوسری ماں کے ساتھ خوش ہیں۔ اب میری ایک ہی زندگی کی خواہش ہے جو میں کوشش بھی کر رہی ہوں اگر وہ مجھے بچے ہی دے دیں تو میں جو دن بدن نفسیاتی مریض بنتی جا رہی ہوں۔ شاہد میں ٹھیک ہو جاؤں مگر لگتا نہیں کہ وہ مجھے میرے بچے دیں گے۔ آپ لوگوں سے گزارش ہے دعا کریں کہ دے دیں۔
جو غلطیاں میں نے کیں ہیں اس قابل تو نہیں کہ میرے ساتھ کوئی اچھا سلوک ہو۔ مگر اللہ کے لئے کوئی کام مشکل نہیں۔ میری آپ تمام بہنوں سے گزارش ہے جو جاب ہولڈر ہیں چاہے وہ پرائیوٹ سیکٹر میں ہیں یا گورنمنٹ میں، سیلری خاوند سے زیادہ ہے یا کم، کبھی جاب کو اپنا غرور وتکبر مت بنانا۔ دیکھو میرے پاس پیسہ تو ہے، جاب ہے مگر پیسہ انسان کا سہارا نہیں بنتا آپ پیسوں سے اور نوکریوں سے خوشیاں نہیں خرید سکتے۔ میری چھوٹی بہن ڈاکٹر ہے گورنمنٹ جاب ہولڈر ہے اسکے خاوند ایک پرائیویٹ سیکٹر میں جاب کرتے ہیں میں جب ان دونوں کو سب کچھ مل جل کر بناتے دیکھتی ہوں تو مجھے اپنی زندگی سے اور نفرت ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
میں نے کیوں کیا اپنے ساتھ ایسا ؟کیوں ہوا میرے ساتھ ایسا ؟ عموماً پوسٹ دیکھنے کو ملتی ہیں مرد یہ ہے وہ ہے کوئی شک نہیں ہوتے ہیں مرد بھی ایسے مگر عورتیں بھی بہت ذیادہ ایسی ہوتی ہیں جو غرور وتکبر میں اپنا خود برباد کر دیتی ہیں پھر پچھتاوا ہی رہ جاتا ہے۔ میری بہنوں کبھی بھی کسی عورت کی بات میں آ کر اپنا گھر برباد مت کرنا عورت ہی عورت کی دشمن ہے یہ کبھی مت بھولنا۔
مجھے اتنی ٹھوکریں کھا کر سمجھ آئی کہ بیشک آپکے پاس جاب ہو بہت بڑی نوکری ہو بہت بڑی انکم ہو مگر ایک مرد کے بغیر عورت نامکمل ہے اور ایک مرد عورت کے بغیر نامکمل ہے۔ یہی فیملی ہوتی ہے میاں بیوی بچے اسکے علاؤہ کوئی چیز آپکو کبھی خوشی نہیں دے سکتی اور یہ معاشرہ ایسا ہے یہاں ایک طلاق یافتہ عورت کتنی ہی پاک صاف کیوں نہ ہو اسکو ہر کوئی غلط نظر سے ہی دیکھتا ہے۔اپنے ہوں یا غیر ہر کوئی غلط ہی سمجھتا ہے۔ اللہ ہر کسی کی بہن بیٹی کے نصیب اچھے کرے غرور وتکبر سے اللہ ہر ایک کو بچائے ۔ میرے لئے دعا کرنا اللہ کوئی بہتری والا معاملہ کرے ورنہ جس قدر میں نفسیاتی مریض بنتی جا رہی ہوں میرے پاس یہ نوکری بھی نہیں رہے گی۔ ( منقول)