سوال 2854

مجھے بڑے ہوکر پتا چلا ہے کہ میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اور میرے والد صاحب نے ٹرین کے نیچے آکر خود کشی کر لی تھی، خود کشی کا سبب مجھے معلوم نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ میں اپنے والد کے لیے دعائے مغفرت اور ان کے ایصال ثواب کیلئے انفاق فی سبیل اللہ کر سکتا ہوں؟

جواب

اگر آپ کے والد صاحب موحد اور متبع سنت تھے، ان کا عقیدہ درست تھا ، پھر آپ ان کے لیے دعا مغفرت کر سکتے ہیں، ان کی طرف سے صدقے کا بھی بندوبست کر سکتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شرعی طور پر فوت شدگان کے لیے دعا ثابت ہے۔
[ صحیح مسلم : 2255]

اسی طرح میت کی طرف سے صدقہ ثابت ہے۔
[صحیح البخاری : 2756]

کسی خاص صورت میں میت کی طرف سے فرضی حج یا عمرہ کا جواز بیان کیا جاسکتا ہے۔
[صحیح البخاری : 7315]

میت کی طرف سے باقی فرض روزے بھی رکھیں گے ورثاء۔
[صحیح البخاری : 1953]

البتہ میت کی طرف سے نماز پڑھنے یا میت کو قرآن پڑھ کر بخشنے، اس کے ایصال ثواب کے لیے ختم، قران خوانی کا تصور دین اسلام میں نہیں۔ نہ ہی اس بدعت سے میت کو کچھ فائدہ ہوگا البتہ بدعت کی وجہ سے وبال ضرور ہوسکتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ

سائل:
شیخ میت کی طرف سے نذر کے روزے رکھیں گے یا پھر مطلقا رمضان کے روزے بھی رکھ سکتے ہیں؟
جواب:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ

“مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ، ‏‏‏‏‏‏صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ” [صحيح البخاري : 1952]

«اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کے ذمہ روزے واجب ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ دے»
اس حدیث بعض نے ظاہری معنی لیا ہے کہ جس کے ذمے روزے ہوں، وہ اپنی زندگی میں نہیں رکھا ، بالآخر دنیا سے چلا گیا ہے، پھر اس کے ولی و وارث روزے رکھیں گے۔
راجح قول ہمارے مطابق یہ ہے کہ اس سے مراد نذر کے روزے ہیں، نذر کے روزے اس کے ذمے تھے، تو پھر اس کے ولی و وارث روزے رکھ سکتے ہیں، بصورت دیگر اگر نہیں رکھ سکتے ہیں تو فدیہ دے دیں، اگر رمضان کے تھے ، وہ بھی نہیں رکھ سکے تو بھی فدیہ دے دیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

میت کی طرف سے رمضان کے روزے رکھنے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں:
(1) : اگر تو والدین دائمی مریض تھے یا بوڑھے تھے تو ان پر روزے فرض ہی نہیں تھے، بلکہ فدیہ دینا کافی ہے، اگر نہیں دیا تو اب اولاد دے دے۔
(2) : اگر وہ بیمار تھے، لیکن صحت یابی کی امید تھی اور صحت یاب ہونے سے پہلے ہی فوت ہوگئے تو ان کی طرف سے نہ فدیہ ہے نہ ہی روزے رکھیں گے۔
(3) : اگر عارضی بیمار تھے، لیکن فوت ہونے سے پہلے کچھ ایام صحت یابی کے گزارے، جن میں قضاء دے سکتے تھے، لیکن نہیں دی تو ایسی صورت میں ورثاء میت کی طرف سے روزے رکھیں گے۔
[ صحیح البخاری : 1952]
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ