سوال
میرا نام عامرستار ہے۔ میری بیوی اقراء مریم نے مجھ سے خلع کا مطالبہ کیا تھا کہ وہ کورٹ سے لے لے گی۔ ۱۲ دن پہلے ہم نے گھر پر طلاق کے پیپر پر دستخط کرکے جمع کروادیئے اور اب ہم دونوں آپس میں صلح چاہتے ہیں۔
میری بیوی کی زبانی مسئلہ:
’میں نے خلع کا مطالبہ کیا تھا کہ کورٹ سے لے لوں گی۔ شوہر کی فیملی نے کہا کہ کورٹ سے نہ لیں اور خلع کے پیپرز بنوائے۔ خلع کے مطالبے پر طلاق نامے کے اسٹامپ پیپرز پر دونوں نے سائن کیے اور شوہر نے تین بار منہ سے بھی کہلوایا کہ بیوی کے مطالبے پر میں نے طلاق دی۔ اس نے تین بار کہا… ابھی 12 دن ہوئے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں فتویٰ مل جائے جس کی بنیاد پر ہم صلح کر لیں کیونکہ اصولاً یہ خلع تھی۔ پیپرز میں بھی یہی لکھا ہے اور ہم سنی ہیں، ہمیں کہیں سے فتویٰ نہیں مل رہا اور وکیلوں نے بھی جواب دے دیا ہے‘۔
اب ہمیں قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس مسئلے کا حل بتادیں؟ کیا ہمارے پاس رجوع کرنے کی گنجائش باقی ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
سوال کے مطابق بیوی عدالت سے خلع لینا چاہتی تھی، لیکن شوہر اور اسکی فیملی نے کہا کہ عدالت سے خلع نہ لو ہم خلع کے پیپرز بنواکر سائن کردیتے ہیں، تو اس ساری وضاحت سے یہی لگتا ہے کہ عورت کے مطالبے پر ہی مرد نے طلاق نامے کے اشٹام پیپر پر سائن کیے ہیں کہ میں خلع دے رہا ہوں۔ لہذا یہ طلاق نہیں بلکہ خلع ہے، یعنی یہاں لفظ تو طلاق کا استعمال ہوا ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد خلع ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ طلاق یا خلع کا لفظ ایک ہی وقت اور مجلس میں جتنی بار مرضی کہ دیا جائے وہ ایک ہی شمار ہوتا ہے۔
لہذا انکی طلاق نہیں بلکہ خلع ہوچکا ہے۔
خلع لینے والی عورت کی عدت (اگر وہ حاملہ نہ ہو تو) ایک حیض ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع لے لیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا۔ [سنن الترمذی:1185]
راجح موقف یہی ہے، البتہ بعض اہل علم کے نزدیک اس کی عدت بھی طلاق کی طرح تین حیض ہے، لہذا بعض علماء کے نزدیک احتیاط پر عمل کرتے ہوئے تین حیض عدت گزار لی جائے تو بہتر ہے۔
اگر عورت خلع کے بعد سابقہ خاوند کے پاس جانا چاہتی ہے تو رجوع تو نہیں ہوسکتا لیکن تجدید ِنکاح کے ساتھ یہ پہلے خاوند کے پاس جاسکتی ہے اور اس صورت میں اس پر کوئی عدت گزارنا بھی لازم نہیں ہے۔ کیونکہ عدت کا اصل مقصد استبرائے رحم ہوتا ہے تاکہ نسب محفوظ رہے لیکن اس صورت میں تو عورت سابقہ شوہر کے پاس ہی جارہی ہے، اس لیے اس پر اس صورت میں عدت گزارنا لازم نہیں ہے۔
البتہ سابقہ شوہر سے نکاح کے لیے بھی نکاح والی تمام شروط یعنی ولی، حق مہر، گواہوں وغیرہ کا ہونا ضروی ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ