سوال
میری اہلیہ نے اسلامک شریعہ کونسل لندن میں خُلع کی درخواست دی۔ اس نے مجھ پر متعدد جھوٹے الزامات لگائے جن کا مقصد محض نکاح کا اختتام تھا، مگر میڈی ایشن کے دوران وہ کوئی الزام ثابت نہ کر سکی۔
میں نے شریعہ کونسل پر واضح کیا کہ: خلع ایک باہمی معاہدہ ہے (mutual agreement between husband and wife)؛
لہذا میری مرضی اور رضامندی کے بغیر خلع ممکن نہیں؛ لہٰذا، وہ فسخِ نکاح کی طرف بڑھنے لگے، تاکہ زبردستی علیحدگی کو شرعی شکل دی جا سکے۔
میری اہلیہ ڈپریشن کی مریضہ ہے اور ان ذہنی حالات میں اس نے بعض باتیں کہیں، جنہیں کونسل نے استعمال کیا بجائے اس کے کہ اُس کی ذہنی حالت کو سمجھتے۔
جب میں نے کچھ جید علمائے کرام کی رائے اور ویڈیوز بطور حوالہ پیش کیں، تو کونسل کے بعض افراد نے ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم اسلام زیادہ جانتے ہیں، پاکستان والے جاہل ہیں۔”
میڈیائٹر (ایک خاتون) نے ذاتی بغض کی بنیاد پر، مجھے شرعی اصول سمجھانے پر توہین آمیز رویہ اختیار کیا اور اپنی ذاتی ضد میں فریق بن گئی۔
بعد ازاں، کونسل نے میری بیوی کو علیحدہ طور پر ورغلایا اور اُسے کچھ مخصوص باتیں کہنے کو کہا تاکہ وہ فسخ کو جائز قرار دے سکیں۔
پھر ایک نئی میڈی ایشن کا ڈرامہ رچایا گیا، جس کا فیصلہ پہلے سے طے تھا۔ میری بیوی کو پہلے ہی بتا دیا گیا کہ “ہم فسخ دے رہے ہیں، یہ دوسرا سیشن صرف ایک رسمی کارروائی ہے۔”
بحمداللہ، میرے پاس تمام گفتگو، میسیجز اور آڈیوز موجود ہیں جو اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ کونسل کا عمل غیر شرعی، غیر منصفانہ اور منصوبہ بند تھا۔
میری گزارشات:
چونکہ میرے خلاف کوئی بھی الزام شرعی و قانونی طور پر ثابت نہیں ہوا، تو کیا اسلامی شریعت میں فسخِ نکاح کا فیصلہ بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے صرف عورت کے بیان پر جائز ہے؟
اگر ایسا فسخ مکمل جھوٹ اور ذاتی بغض پر مبنی ہو، تو کیا وہ شرعاً باطل، غیر مؤثر (invalid) اور ناقابلِ قبول نہیں ہوگا؟
کیا یہ طرزِ عمل، جس میں شریعہ کونسل نے پہلے سے طے شدہ فیصلے کو میڈی ایشن کے نام پر ظاہر کیا، اور خاتون کو ورغلا کر فسخ حاصل کیا، اسلامی اصولوں، سنتِ رسول ﷺ، اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف نہیں ہے؟
کیا “فسخِ نکاح” کو اس طرح بزنس کا ذریعہ بنانا اور فریقِ شوہر کی سنے بغیر، اور الزامات کے ثبوت کے بغیر فسخ دے دینا اسلام کی روح کے خلاف نہیں ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
طلاق دینا مرد کا حق ہے اور خلع لینا عورت کا حق ہے، جس طرح طلاق میں عورت کی رضامندی شرط نہیں، اُسی طرح خلع میں شوہر کی رضامندی شرط نہیں، اس لیے اس شخص کا یہ کہنا کہ “خلع میری مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا” یہ بات بالکل غلط اور بے اساس ہے۔
نکاح کے بعد علیحدگی کے دو طریقے ہیں، 1: طلاق 2: خلع اگر مرد عورت کیساتھ نہ رہنا چاہے تو وہ عورت کو طلاق دے کر علیحدہ کرسکتا ہے، جبکہ اگر عورت مرد کیساتھ نہ رہنا چاہے تو وہ اپنے حق مہر کے عوض خاوند سے خلع لے کر الگ ہوسکتی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتابُ الطلاق سے قبل بابُ الخلع قائم کیا اور اس بات کی تصریح فرمائی کہ خلع بذریعہ عدالت ہو یا ماورائے عدالت دونوں طرح ہی نافذ العمل ہے۔ طلاق ہو یا خلع فریقین کی باہمی رضامندی شرط نہیں، البتہ نکاح میں دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے خاوند کو طلاق کا اختیار دیا ہے، اسی طرح عورت کو خلع لینے کا اختیار دیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
“فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَ لَّا يُقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا فِيۡمَا افۡتَدَتۡ بِه”. [البقرة: 229]
’’پھر اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہیں رکھیں گے تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو عورت اپنی جان چھڑانے کے بدلے میں دے دے‘‘۔
اس آیت میں خلع کا بیان ہے، یعنی عورت خاوند سے علیحدگی حاصل کرنا چاہے اور خاوند طلاق دینے پر تیار نہ ہو تو عورت جان چھڑانے کے لیے اپنا مہر یا خاوند اور بیوی کے درمیان جو بھی آپس میں یا حاکم کی عدالت میں طے پا جائے، وہ چیز بطور فدیہ دے کر اپنی جان چھڑا لے۔ پھر خواہ خاوند خود ہی فدیہ لے کر اسے چھوڑ دے، یا اگر وہ اس پر تیار نہ ہو تو حاکم اسے فدیہ لے کر چھوڑنے کا حکم دے، اگر وہ نہ مانے تو عدالت نکاح فسخ کر دے۔ چونکہ یہ درحقیقت طلاق نہیں بلکہ عورت کی طرف سے علیحدگی کا مطالبہ ہے، اس لیے اسے خلع کہتے ہیں۔
اگر کسی عدالت، قائم مقام عدالت یا شرعی کونسل نے عورت کے مطالبے پر خلع یا فسخ کا فیصلہ سنا دیا ہے، تو وہ نافذ ہوچکا ہے، خواہ اس پر شوہر راضی ہے یا نہیں۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی کے مطالبے پر انکے درمیان جدائی کروادی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
“اقْبَلِ الْحَدِيقَةَ، وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً”. [صحیح البخاری:5273]
’’باغ واپس لے لو اور اسے آزاد کر دو‘‘۔
لہٰذا اگر لندن کی عدالت یا شریعہ کونسل نے انکے درمیان خلع یا فسخ نکاح کا فیصلہ سنادیا ہے تو انکا خلع ہوچکا ہے۔
شوہر کو نصیحت:
یہ حضرت جو سارا الزام اپنی بیوی پر ہی لگائے جارہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ اپنے اخلاق و عادات پر بھی توجہ دیں اور اپنے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کریں، اگر آپ کی بیوی ہی یہ بیان دے رہی ہے کہ میں اپنے شوہر کیساتھ نہیں رہنا چاہتی اور آپ طلاق نہیں دے رہے تو پھر عدالت تو خلع یا فسخ کا فیصلہ سنائے گی ہی۔
اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا گھر بسا رہے، تو خلع ہوجانے کے بعد بھی دوبارہ نکاح ممکن ہے۔ لہٰذا آپ اپنے معاملات کو سدھاریں، اپنی بیوی اور بچوں کو اعتماد میں لیں، اسکی ذہن سازی کریں، اسکو سمجھانے اور راضی کرنے کی کوشش کریں، اگر عورت راضی ہوجاتی ہے تو آپ خلع یا فسخ نکاح کی ڈگری جاری ہو جانے کے بعد بھی ایک حیض عدت گزرنے کے بعد جب چاہیں نکاحِ جدید کے ذریعے اپنے گھر کو دوبارہ بسا سکتے ہیں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ