سوال
ایک بندے نے اپنی بیوی کو طلاق دی پھر رجوع ہوا، کچھ سالوں بعد اس عورت نے عدالت کے ذریعے خلع لیا۔ جب اسکا خاوند دوسرے ملک سے آیا تو اس نے کہا میں نے طلاق دی ہی نہیں۔ لیکن پھر نیا نکاح کرلیا، کیونکہ عدالتی طور پر خلع ہوچکا تھا، پھر کچھ سالوں بعد اس بندے نے طلاق دے دی۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس خلع کو بھی دو طلاقوں کے ساتھ تیسری طلاق شمار کیا جائے گا، یا پھر خلع کو طلاق سے الگ سمجھ کر اسے ایک بار رجوع کا موقع دیا جائے گا؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
ہمارے موقف کے مطابق خلع فسخ ِ نکاح ہے، طلاق نہیں ہے ،اس کی چندایک وجوہات ہیں:
1: طلاق دینا بندے کا اختیار ہے ،اورخلع لینا عورت کا اختیار ہے ۔
2: طلاق کے بعد مرد حق مہر میں سے کچھ نہیں لے سکتا جبکہ خلع میں عورت حق مہر خاوند کو واپس کرے گی۔
3: طلاق کی عدت تین حیض ہے جبکہ خلع کی عدت ایک حیض ہے ۔
4: خلع میں دران ِعدت رجوع نہیں ہو سکتا جبکہ طلاق میں درانِ عدت رجوع ہو سکتا ہے۔
5: خلع میں عدت کے بعد اس سے نکاح ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ خلع کی وجوہات ختم ہونی چاہیے، یہ نہ ہو کہ پھر وہی مسائل رہیں اور عورت پھر خلع لے ، یوں ایک شرعی حکم مذاق بن جائے گا۔ یہ ہمارا اجتہاد ہے، اس پر کوئی نص یا سلف کے اقوال نہیں ہیں۔
اس کو اگرطلاق پر بھی قیاس کیا جائے تو تین بار سے زیادہ خلع کا اختیار دینا درست نہیں۔ بار بار یہ جگ ہنسائی نہیں ہونی چاہیے ، کہ وہ خلع لے پھر نکاح کر لے پھر خلع لے اور نکاح کر لے ۔
اور یہ جو صورتِ مسئلہ ہے کہ آدمی نے طلاق دی پھر عورت نے عدالت سے خلع لے لیا پھر نکاح کر کے گھر آباد کر لیا پھر اس نے طلاق دے دی تو یہ دوطلاقیں واقع ہوئی ہیں، خلع کو طلاق شمار نہیں کیا جائے گا۔
لہذا اب اگر خاوند دورانِ عدت رجوع کرنا چاہتا ہے تو بلا تجدیدِ نکاح رجوع ہو سکتا ہے ۔ اور اگر طلاق کی عدت گزر چکی ہے تو تجدیدِ نکاح سے گھر کو آباد کیا جاسکتا ہے ۔لیکن یہ ذہن میں رہے کہ اب اس کے پاس طلاق کا صرف ایک اختیار ہے وہ بھی فیصلہ کن ہے ۔اگر یہ پھر طلاق دے دے گا تو پھر نہ تو درانِ عدت اور نہ عدت گزرنے کےبعد رجوع یا نکاح ہوسکے گا ۔
اگر آخرى ( یعنی تيسرى ) طلاق ہو جائے تو پھر عدت ختم ہونے کا انتظار کیے بغیر، وہ عورت مرد كے ليے حرام ہو جاتى ہے، اور رجوع کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ الا كہ اس سےکوئی دوسرا شخص گھر بسانے کی نیت سے شرعى نكاح كرے، اور پھر وہ شخص فوت ہوجائے، یا پھر ویسے طلاق دے دے، تو ایسی صورت میں عدت گزرنے کے بعد پہلا مرد اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
“فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ”. [البقرة: 230]
’اور اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے، تو وہ اس كے بعد اس كے ليے اس وقت تک حلال نہيں ہو گى جب تک كہ وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے‘۔
ایسی صورت میں اس کو پھر تین طلاق دینے کا اختیار مل جاتا ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ