کافی عرصہ سے یہ باتیں سوچتا رہا ہوں لیکن کبھی نوک قلم یا نطق لساں کے حوالے نہ کرسکا۔ اس حقیقت کو جھٹلانا ناممکن ہے کہ ہمارے برصغیر کے اکابر اہلحدیث علماء کرام علم و خطابت دونوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔ علم، ادب، خطابت، دلائل، حاضرجوابی، احسن انداز میں مناظرہ و مجادلہ وغیرہ ان تمام خوبیوں سے متصف ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ علامہ احسان الہی ظہیر و علامہ حبیب الرحمن یزدانی رحمہما اللہ کے دور تک قریباً ایسے ہی تھا۔  ہر عالم و خطیب جو بھی طرز خطابت اپناتا اس میں دعوتی خلوص، مسلکی حمیت اور دنیاوی جاہ و جلال سے بے رغبتی نمایاں ہوتی تھی۔  یہی وجہ تھی کہ بغیر ساونڈ سسٹمز کے اور بسا اوقات سپیکرز کے ببغیر بھی ایسی تقاریر وخطابات ہوتے تھے کہ لوگوں کے دلوں کی دنیا بدل جاتی اور سینکڑوں و ہزاروں لوگ اپنے منہج و عقیدے کی اصلاح کرتے تھے۔  بعد ازاں رفتہ رفتہ یہ اخلاص و حمیت جیسی نعمتیں مفقود ہونا شروع ہو گئیں۔  جاہ و جلال،  اور شہرت پسندی پہلی ترجیحات میں آنا شروع ہو گئیں۔  دعوت دین جیسا میدان حصول دولت کا بہترین ذریعہ بننا شروع ہو گیا۔ سامعین طرزوں کے دلدادہ بنتے گئے اور مقررین مشہور طرزوں کے نقّال بننا شروع ہو گئے۔  پھر تاریخ نے دیکھا کے ایرے غیرے تک فکر ظہیر کے علمبردار بن گئے۔  یزدانی کے لاحقے عام ہو گئے۔  شعلہ نوا خطیب،  شیریں بیان خطیب،  نکتہ داں خطیب،  عظیم مذہبی سکالر،  نڈر و بے باک خطیب،  وغیرہ جیسے القابات کا ایسا بے تحاشا اور بے محل استعمال ہوا کہ اللہ کی پناہ۔  عوام کانوں کے چسکے پورے کرنے لگی۔  اس کیلئے کانفرنسزز میں جس کا پسندیدہ خطیب ہوتا اگرچہ وہ مقامی حالات اور ضروریات کے مطابق  پورا اترتا ہوتا یا نہیں اس کو بلایا جانے  لگا۔ مقامی کانفرنسیں کروانے والے حضرات کو یہ رشوت دی جانے لگی کہ فلاں کو بلائیں ان کا خرچہ میں دے دوں گا۔  اور کانفرنسوں کی منتظمین بھی اس بات کو مد نظر رکھنے لگے کہ کس خطیب پر عوام زیادہ جمع ہو گی؟  تاکہ ویڈیو میں زیادہ اجتماع نظر آئے وغیرہ وغیرہ۔  یعنی میرٹ کی دھجیاں اڑ گئیں۔  وہی سٹیج جہاں سے کہا جاتا تھا کہ بات بیس اور آٹھ کی نہیں بلکہ بات معیار کی ہے۔  اسی سٹیج کیلئے اب میرٹ و معیار بے وقعت ہو چکا تھا۔
اب دوسری طرف جب خطباء کا پروٹوکول جائز حدود سے تجاوز کرنے لگا تو ان کیلئے ضروری ہو گیا کہ وہ اپنے خطابات کو وزن دار بنائیں۔  چاہئے تو یہ تھا خطاب کو دلائل،  متانت، سنجیدگی اور اخلاص سے وزن دار بنایا جاتا لیکن خطابات کو جگتوں،  غیر ضروری للکاروں،  بے تحاشا شاعری، اور جذباتی رلانے والے انداز  سے سجایا جانے لگا۔  ایک ایک خطیب کے روازانہ کی بنیادوں پر پروگرامز ہونے لگے۔  جس کی وجہ سے لائبریری اور کتب کو وقت دینا مشکل ہو گیا۔  ظاہر سی بات ہے موضوعات محدود ہو گئے۔  ماں کی شان،  باپ کی عظمت، یتیموں کے  آنسو وغیرہ موضوعات اکثر چلنے لگے۔  وقت کی ضرورت کے مطابق جدید مسائل پر گفتگو کرنے والے علماء کم ہوتے گئے۔  بلکہ جو علماء وقت کی ضرورت کے تحت بلائے جاتے ان کی گفتگو خشک اور پھیکی معلوم ہونے لگی۔
اس کے بعد ایک اور دردناک مرحلہ مزید آیا۔  مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے سے قبل ہی خطابت کی مہارت آجانے سے اور کسی بھی پہلے معروف خطیب صاحب کی طرز اپنا لینے سے تعلیمی دورانیہ مکمل کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہونے لگا۔  جس کی وجہ سے علمی مہارتوں اور اصولوں سے ناآشنائی جنم لینے لگی۔  اس سے علم و مطالعہ مزید محدود بلکہ مفقود  ہونے لگا۔  ایسے حالات میں عجیب و غریب مضحکہ خیز لطیفوں  نے جنم لینا شروع کردیا۔  کسی خطیب صاحب سے پوچھا گیا آپ کہاں کے فارغ التحصیل ہیں تو وہ کہنے لگے او پاگلا! میں ضلعے کراس کر آیا ہوں اور تم ابھی تک تحصیلوں کا پوچھتے پھر رہے ہو۔ ایک بڑے شعلہ نوا خطیب صاحب کوہاٹ میں خطاب کرنے گئے۔ بعد ازخطاب کسی نے مسئلہ پوچھا کہ مدرک الرکوع کی رکعت ہو جاتی ہے یا نہیں۔ تو فرمانے لگے کبھی کبھی ہو جاتی ہے اور کبھی کبھی نہیں ہوتی۔ اس دوسرے واقعہ کے عینی شاہد ہمارے ایک دوست ہیں۔
اب آئیے ایک اور رخ پر سوشل میڈیا اکثر اوقات فتنہ ثابت ہوا ہے۔ اس کے فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی بہت ہیں۔ اس میں ایک بڑا نقصان یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ چھوکرے قسم کے لڑکوں کے ہاتھوں بسا اوقات پورے مسلک اور جماعت کی عزت آجاتی ہے اور وہ چند لائکس، چٹخارے دار کمنٹس اور مشہوری کے چند شیئرز کی خاطر پوری جماعت کی عزت داو پر لگا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ نادانی بھی ایک بڑا فیکٹر ہے۔ مزید ایک اور یہ بات بھی ہے کہ لڑکپن کی عمر کے افراد جذباتی ہوتے ہیں۔ ان کی عقیدت یا وابستگی کسی جماعت سے ہوتی ہے تو اس اندھی عقیدت میں وہ دوسری ہم مسلک جماعتوں اور ان کے علماء تک کی عزت کو اچھالنے سے دریغ نہیں کرتے۔
البتہ بعض مخلص ناقدین بھی ہوتے ہیں جن کی تنقید برائے اصلاح ہوتی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کبھی کبھی تنقید برائے اصلاح کا محل سوشل میڈیا نہیں ہوتا۔ اس فرق کو مدنظر رکھ کر بات کریں تو معاملات نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایسے حالات میں جماعت کے اکابرین کو کوئی مناسب حکمت عملی اپنانی چاہئے۔ منبر و محراب کے تقدس کو برقرار رکھنے کیلئے میرٹ تشکیل دینا چاہئے۔ اور عوام کو بھی اپنا مزاج محض لطف اندوزی سے ہٹ کر علمی، فکری اور عملی بنانا چاہئے۔ واللہ المستعان۔

ابو الطیب محمد نصیر علوی