سوال (5358)
کیا شریعت اسلامیہ میں خواتین کو کھلی اجازت ہے؟ کیا وہ غیر محرم کو دیکھ سکتی ہیں؟
جواب
عورتوں کے لیے مردوں کو عمومی طور پر دیکھنے کی کلی اجازت نہیں ہے۔ قرآن مجید نے اس کا دروازہ بند کر دیا ہے، جیسا کہ فرمایا:
“وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ” (النور: 31)
اور مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔
اگر کوئی شخص مکمل اجازت دیتا ہے تو وہ اس آیت کی خلاف ورزی کر رہا ہے، کیونکہ اہل ایمان عورتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔
ہاں، بعض مواقع پر کسی شخصیت یا اس کے کسی عمل کو دیکھنا الگ بات ہے۔ جیسے کہ حبشہ کے کچھ لوگ مسجدِ نبوی میں جنگی مشق کر رہے تھے، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کی اجازت سے انہیں دیکھا۔ وہ ان کے چہرے نہیں، بلکہ ان کے اعمال (یعنی مشقیں) دیکھ رہی تھیں۔ اس لیے دیکھنے میں نیت اور مقصد کا فرق اہم ہوتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: شیخ صاحب یہ جو آج کل کلاسس ہوتی ہیں، یونیورسٹیوں میں سکولز میں اور پھر آج کل مدارس و جامعات میں بھی مرد اساتذہ (بزرگوں کے علاوہ جوان بھی شامل) آمنے سامنے بیٹھ کر پڑھانا، اس کی کیا صورت بنے گے؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عھد مبارکہ میں ایک ہی مسجد میں سب کا اہتمام ہوتا تھا، سب اکٹھے ہوتے تھے، فاصلے کے ساتھ، چادروں کے ساتھ، نگاہیں نیچی رکھ کے، آنے جانے کے کچھ آداب سکھائے جاتے تھے۔ یہ سب باتیں موجود ہیں۔ تو اگر ان سب باتوں کا لحاظ رکھا جائے، جو شریعت کے مطابق ہیں، تو تعلیم لی بھی جا سکتی ہے اور دی بھی جا سکتی ہے۔
اب یہ ہے کہ کمی کوتاہی تو ہوتی ہے لوگوں سے، حدیث میں آتا ہے کہ ایک بندہ یا کچھ لوگ لیٹ آتے تھے تاکہ رکوع کے وقت پیچھے کھڑی عورتوں کو دیکھ سکیں۔ تو انسان ہے، غلطی ہو جاتی ہے۔ لیکن ہم اس بنیاد پر مطلقاً تعلیم پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ جواز موجود ہے۔ بس ان آداب کو واضح کیا جائے، اچھی طرح سمجھا دیا جائے، تو تعلیم و تعلم جائز ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم چاہنے کے باوجود یہ اسکرین والا سسٹم نہیں روک سکتے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ کچھ دنوں بعد جمعہ کے خطبے بھی اسی طرح ہوا کریں گے، اگرچہ کوئی بھی اس کو “صحیح” نہیں کہتا، لیکن چل رہا ہے۔ خطیب سامنے ہونا چاہیے، لیکن اب کانفرنسوں میں بھی یہ عام ہو گیا ہے کہ بڑی بڑی اسکرینیں خواتین کے لیے، مرد حضرات کے لیے لگا دی جاتی ہیں تاکہ وہ خطیب کو دیکھ کر سن سکیں۔
تو اگرچہ یہ بات اپنی جگہ پر ٹھیک نہیں ہے، لیکن تعلیم چونکہ ایک ضرورت ہے، اس لیے وہ الگ معاملہ ہے۔ اور یہ چیز بڑھے جا رہی ہے۔ واللہ المستعان۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
جتنا ممکن ہو اجتناب لازم ہے۔
خواتین کو صرف خواتین ہی تعلیم دیں اگر کوئی کسی فن کی ماہر خاتون معلمہ موجود نہیں ہیں تو تب کسی متقی پرہیز گار نیک سیرت مرد استاد اور شیخ کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔
خواتین کا مرد اساتذہ سے تعلیم لینے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسرے کمرے میں ہو اور بچیوں دوسرے کمرے میں ہوں بس ان کے درمیان آواز آ رہی ہو اگر ایسا ممکن نہیں تو تب درمیان میں پردہ ہونا چاہیے ہے اور طالبات کے پاس ایک خاتون بطور نگران موجود رہنی چاہیے حتی کہ کلاس مکمل ہو جائے۔
میری زوجہ جہاں پڑھی ہیں وہاں طالبات اور اساتذہ کے کمرے الگ ہوتے تھے اور طالبات کی نگرانی ایک خاتون معلمہ کرتی تھیں اور استاذ گرامی کو صرف طالبات کے یوں نام بتائے گئے تھے، ثانیہ، ثالثہ،رابعہ، خامسہ، باقی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اگر طالبات کا استاذہ سے ہم کلام ہونا یا کسی ضرورت علمی کے تحت دیکھنا پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
گناہ تب ہو گا جب وہ شرعی حدود وقیود سے باہر نکلیں گیں۔
اسی طرح استاذہ کو دوران تدریس حدیث وفقہ کے وہ مسائل چھوڑ دینے چاہیے ہیں جن کا تعلق خاص خواتین وطالبات کے ساتھ ہے ۔والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ