سوال (5911)

ہمارے بعض اہل حدیث حضرات بضد ہوتے ہیں کہ کوئی اہل حدیث فوت ہو تو جنازہ اہل حدیث ہی پڑھائے چاہے وہاں جھگڑا ہو جائے۔ اس حوالے سے وضاحت فرمائیں۔

جواب

فساد سے بچنا ضروری ہے، ہمارے بڑے قریبی رشتے دار فوت ہوئے ہیں، وہ اہل حدیث مسلک سے نہیں تھے، اگر کسی نے کہا تو ہم نے جنازہ پڑھا دیا ہے، اگر نہیں کہا تو نہیں پڑھائی ہے، اس وجہ سے کہ اس موقع پر ضد کرنا مناسب نہیں ہے، میت کے ورثاء کی تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے، باقی یہ یاد رکھیں کہ اصول یہ ہے کہ میت کا نماز جنازہ وہ ہی شخص پڑھائے، جو قرآن و سنت کا پابند ہے، اگر کسی جگہ فساد کا خدشہ ہو تو وہاں سے پسپائی اختیار کرنا حکمت کا تقاضا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

جامعہ محمدیہ گوجرانولہ میں جن دنوں ہم پڑھتے تھے ایک جنازہ جامعہ کے ساتھ والے فاطمی پارک میں لایا گیا اور تب یہ پارک نہیں تھی جنازہ پڑھانے کے لئے ایک سبز پگڑی والے مولوی صاحب آگے آئے تو ہمارے استاذ گرامی شیخ رفیق سلفی صاحب کہنے لگے حضرت حافظ صاحب کی موجودگی میں اگر یہ شخص جنازہ پڑھائے گا تو ہم جنازہ نہیں پڑھیں گے مگر وہ مولوی پیچھے نہیں آیا تو شیخ صاحب کہنے لگے سب طلبا واپس چلو ہم اس کی اقتداء میں جنازہ نہیں پڑھیں گے جب استاذہ کرام اور طلبا صفوں سے نکلنے لگے تو کچھ لوگوں نے کہا جی ٹھیک ہے حافظ صاحب ہی جنازہ ( مراد شیخنا المحدث حافظ عبد المنان نورپوری رحمة الله عليه تھے ) پڑھائیں گے تو تب اساتذہ، طلباء صفوں میں واپس لوٹے اور ہمارے عظیم محقق و مفتی شیخ نورپوری رحمة الله عليه آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا۔
مگر اس سارے واقعی میں شیخ نورپوری رحمة الله عليه نے ایک لفظ نہیں بولا تھا۔
باقی حکمت و دانائی سے کام لینا چاہیے جہاں خاموشی بہتر ہے وہاں خاموشی اختیار کریں۔
اور میت اگر واقعی سلفی العقیدہ باعمل ہو تو کسی سلفی عالم دین سے ہی جنازہ پڑھانا چاہیے ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ