سوال (5462)

ہم چھ بھائی ہیں والد اور حیات ہیں۔ اور ایک بھائی فوت ہو گئے۔ کل کو جب جائیداد وغیرہ تقسیم ہو گی تو وہ چھ بھائیوں میں تقسیم ہو گی؟ دوسری بات اگر بھابھی سے نکاح کیا جائے تو نکاح کرنے والے کو دو حصے ملیں گے؟ ایک اس کا اپنا حصہ اور ایک فوت شدہ بھائی والا حصہ؟

جواب

موَرِّث یعنی والد کی وفات کے وقت اس کی اولاد/ ورثاء میں جتنے لوگ زندہ ہوں گے، وہی وارث بنیں گے، جو بیٹا پہلے فوت ہو گیا ہے، وہ وارث نہیں بن سکتا، کیونکہ وراثت کے لیے موَرِّث کی وفات کے وقت زندہ ہونا شرط ہے۔ ہاں اگر والد اپنے اس بیٹے کی اولاد یعنی اپنے پوتوں کے لیے وصیت کر جائے تو یہ الگ مسئلہ ہے۔
بھابھی سے نکاح کرنے والے کو صرف اپنا حصہ ہی ملے گا، جو اس کا بھائی فوت ہو چکا ہے، اس کا وراثت میں سرے سے حصہ موجود نہیں ہو گا، جیسا کہ اوپر وضاحت کر دی گئی ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

اصل بات یہ ہے کہ اگر والد صاحب زندہ ہیں اور ان کی جائیداد کی تقسیم کا سوال ہو، تو فی الحال کسی بیٹے یا بیٹی کا کوئی شرعی حصہ مقرر نہیں ہوتا، کیونکہ وراثت کا حق صرف والد کے انتقال کے بعد پیدا ہوتا ہے۔
لہٰذا اگر والد کی زندگی میں کوئی بیٹا فوت ہو جائے تو وہ بیٹا وراثت میں حق دار نہیں ہوتا، کیونکہ جب والد کا انتقال ہوا ہی نہیں تو وراثت شروع نہیں ہوئی، اور جب وراثت شروع ہی نہیں ہوئی تو اس فوت شدہ بیٹے کا کوئی حصہ نہیں بنتا۔
ایسے میں اس بیٹے کے بچے (یعنی پوتے پوتیاں) بھی براہ راست وارث نہیں بنتے۔ البتہ اگر والد اپنی زندگی میں تحفہ کے طور پر یا وصیت کے ذریعے کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، لیکن وصیت بھی ایک تہائی مال سے زیادہ کی نہیں ہو سکتی، جیسا کہ حدیثِ سعد بن ابی وقاص میں وضاحت ہے۔
لہٰذا والد کے انتقال کے بعد جائیداد زندہ بیٹوں، بیٹیوں، بیوی یا بیویوں میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔
فوت شدہ بیٹے کی بیوی کا وراثت میں تعلق صرف اپنے شوہر (فوت شدہ بیٹے) کی جائیداد سے ہوتا ہے، نہ کہ سسر (والد) کی جائیداد سے۔
اس لیے نکاح ہونے یا باقی رہنے سے دوبارہ وراثت کا حق نہیں بنتا۔ آپ کا جو بھی حصہ ہے، وہ صرف آپ کی قرابت یعنی رشتہ داری کی بنیاد پر ہی ہوگا۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ