سوال (2425)
بلوغت کے بعد بہن بھائیوں کی حد حدود کیا ہونی چاہیے، کیا ایک کمرے میں بہن اور بھائی تن تنہا اکیلے سو سکتے ہیں، شریعت اس کے بارے میں کیا رہنمائی فرماتی ہے۔
جواب
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ سِنِينَ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ” [سنن ابي داؤد : 495]
“جب تمہاری اولاد سات سال کی ہوجائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو”
مندرجہ بالا حدیث میں یہ جو الفاظ آتے ہیں کہ “وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ” اس تفریق سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک چادر میں نہ لیٹیں، بہن بہن ایک چادر میں نہ لیٹیں، بھائی بھائی ایک چادر میں نہ لیٹیں، بہن بھائی ایک چادر میں نہ لیٹیں، بیٹا، ماں، باپ کے ساتھ ایک چادر میں لیٹے، بیٹی ماں پاب کے ساتھ ایک چادر میں لیٹے، اس طرح یہ تقسیم ہے، ہاں یہ یاد رکھیں کہ نیچے کا بچھونا بھلے ایک ہو، باقی اوپر کی چادر الگ ہو نی چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
جی سو سکتے ہیں کیوں کہ محرم ہیں ، البتہ بستر الگ الگ ہو “ویفرق بینهم فی المضاجع” اور ستر وغیرہ کے ظاہر ہونے کا خدشہ نہ ہو.
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ