سوال

ایک بیوہ خاتون عدت گزار رہی ہے۔اس کا بیٹا دبئی رہتا ہے،وہ والدہ کو ساتھ لے جانا چاہتا ہے،یہاں نہیں چھوڑنا چاہتا، کیا وہ  دوران عدت بیٹے کے ساتھ جا سکتی ہے یا نہیں؟جب کہ بیٹے نے جلد جانا ہے۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اس نے چار ماہ دس دن عدت گزارنی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:

“وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًاۚ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ”.[البقرہ:234]

’اور تم میں سے جو  فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑیں تو وہ بیویاں چار مہینے اوردس دن اپنے آپ کو روکے رہیں، تو جب وہ اپنی(اختتامی) مدت کو پہنچ جائیں، تو تم پر اس کام میں کوئی حرج نہیں جو عورتیں اپنے معاملہ میں شریعت کے مطابق کرلیں اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے‘۔

عورت نے جس خاوند کے ساتھ زندگی کے ایام گزارے ہیں،  اس کے حق رفاقت،  وفاداری اور اس کے رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی وغمگساری کا تقاضا یہ  ہے کہ خاوند کے مرنے کے بعد اس کی بیوی عدت کے ایام اپنے خاوند کے گھر میں گزارے، خواہ وہ مکان تنگ وتاریک   ہی کیوں نہ ہو ۔

حضرت فریعہ بنت مالک  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کاخاوند گھرسے باہر کسی دوسرے مقام پر قتل کردیا گیا اور ان کامکان دور دراز مقام پر واقع تھا،  پھر وہ اس کی ملکیت بھی نہ تھا ، تو بیوہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کے مجھے اپنے والدین اور بہن اور بھائیوں کے ہاں منتقل ہونے کی رخصت دی جائے تاکہ عدت کے ایام امن وسکون سے وہاں گزارسکوں۔
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” اپنے گھر میں رہو جہاں تمھیں خاوند کے فوت ہونے کی خبر ملی یہاں تک کے عدت کے ایام پورے ہوجائیں”  لہذا  انہوں نے چار ماہ دس دن اسی گھر میں گزارے۔ [سنن ابن ماجه: 2031 ]

اس لیے یہ خاتون جن کا خاوند فوت ہو چکا ہے اور ان کا بیٹا دبئی میں اپنے ساتھ ان کو لے جانا چاہتا ہےتو شرعا اس کو اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ دبئی چلی جائے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہیں چار ماہ دس دن گزارے جہاں وہ خاوند کی فوتگی کے وقت موجود تھی۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری اور اطاعت ہی میں بہتری اور نجات مضمر ہے۔

واضح رہے کہ حدیث میں تو یہ صورت  ہے کہ عورت اپنے گھر میں تھی جبکہ  خاوند باہر گیا تھا اور وہیں فوت ہوگیا۔اگر خاوند اپنے گھر میں فوت ہواور اس کی بیوی فوتگی کے وقت گھر میں موجود نہ ہو تو اس کے متعلق بھی حکمت کا  تقاضا یہی ہے کہ ایسی عورت بھی عدت کے ایام اپنے خاوند کے گھر میں پورے کرے۔

البتہ اس حکم سے درج ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں:

1۔اگر عورت خانہ بدوش ہےاور کسی مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ اگر ا س کاخاوند وہاں  فوت ہوجائے تواس کے لئے ضروری  نہیں کہ وہ چار ماں دس دن اسی مقام پر گزارے،  بلکہ جہاں وہ قافلہ ٹھہرے گا اسی کےساتھ ہی اپنے ایام عدت گزارتی رہے گی۔

2۔میاں بیوی کرائے کے مکا ن میں رہائش پذیر تھے، خاوند کی وفات کے ساتھ ہی آمدنی کے ذرائع مسدود ہوگئے جس کی وجہ سے کرایہ کی ادائیگی طاقت سے باہر ہو، تو اس صورت میں بھی  وہ کم کرایہ والے مکان میں منتقل ہوسکتی ہے۔

3۔خاوند کے فوت ہونے کے بعد خاوند کے عزیز واقارب نے اسے اتنا تنگ کیا  کہ وہاں ایام پورے کرنا مشکل ہوگئے۔ایسے حالات میں وہ اپنے والدین یا بہن بھائیوں کے پاس منتقل ہوسکتی ہے۔

4۔غیر ممالک میں جہاں خاوندکی وفات کے بعد عورت کوویزے وغیرہ کامسئلہ ہو وہ اپنے ملک واپس آکرعدت گزارسکتی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ