سوال (1132)
شیخ عثیمین رحمہ اللہ کی کون کونسی کتابیں ترجمہ ہو چکی ہیں اور کونسی باقی ہیں۔ نیز درس نظامی کی وہ کتابیں جن کا ترجمہ ہونا چاہیے یا جن کا ترجمہ دوبارہ ہونا چاہیے؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں ۔
جواب
میرا خیال کہ درس نظامی کی کتابوں کا ترجمہ نہیں ہونا چاہیے۔
فضیلۃ العالم سید کلیم حسین حفظہ اللہ
اصل بات یہ چیزیں اس لیے آ رہی ہیں کہ ہمارا علم علم الشھادات ہو کر رہ گیا ہے ، ہمارا علم ڈگریوں اور سندوں تک رہ گیا ہے ، اور یہ انتہائی ایک غلط سلسلہ شروع ہوگیا ہے ، طلباء تراجم والی کتاب پڑھ کر ڈگریاں تو حاصل کر لیتے ہیں ، لیکن علم کے اندر پختگی نہیں آتی ہے ، اس کا نتیجہ پھر یہ ہے کہ جب وہ علمی میدان میں اترتے ہیں تو وہاں پھر ناکام ہوجاتے ہیں ، واعظین قوالی اور شعر سنانے والے کی نقالی کرتے ہیں ، یہ انتہائی خطرناک رجحان ہے ، اس سے پرہیز کرنا چاہیے
فضیلۃ العالم عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
کئی ایک کے تراجم ہو چکے ہیں، اکا دکا رسائل کے دو سے زیادہ تراجم بھی ہیں،
“عقيدة اہل السنة والجماعة”
“الدماء الطبية”
“حقوق دعت إليها الفطرة وقررتها الشريعة”
فضیلۃ العالم سید کلیم حسین حفظہ اللہ
درسی کتابوں کا اردو ترجمہ کرنا علم کی خدمت نہیں ہے ۔ طلبہ کرام کے ساتھ اور اساتذہ کرام کے ساتھ ظلم ہے۔ کسی بھی درسی کتاب کا اردو ترجمہ نہیں کرنا چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
شیخنا اساتذہ جب مدارس میں یہ کتابیں پڑھاتے ہیں تو وہ کیا کرتے ہیں؟ وہ بھی ترجمہ ہی تو کرتے ہیں۔ اگر اصولاً ان فنون کی کتابوں کا ترجمہ نہیں ہونا چاہیے تو اساتذہ کو بھی پڑھاتے وقت ترجمہ نہیں کرنا چاہیے۔
مزید برآں، ہمارے مدارس کے نصابوں کی جب تجدید کی گئی تھی تو یہ طے کیا گیا تھا کہ ہر فن کی پہلی کتاب طلبہ کی زبان میں پڑھائی جائے گی۔
کیا اس اقدام سے طلبہ کی فطری استعداد میں کوئی کمی بیشی ہوئی؟
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے.
فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ
فنون میں اصولاً زبان کو دخل نہیں ہے۔ آپ ریاضی اور طب وغیرہ کسی بھی زبان میں پڑھ لیجیے، یکساں ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
بات صرف فن کی کتب کی نہیں ہو رہی ہے ، بلکہ تمام درسی کتب کی ہو رہی ہے.
فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ
جب کتاب عربی یا فارسی متن کے ساتھ استاذ اور طالب علم کے سامنے ہوگی تو وہ اسے حل کرنے اور سمجھنے پر توجہ دیں گے ، اردو ترجموں کی وجہ سے طرفین متاثر ہوئے ہیں اور اکثر طلبہ کی کتاب فہمی تک متاثر ہوئی ہے ۔ مدارس کے اساتذہ سے معلومات لی جا سکتی ہے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
شیخنا تمام طلبہ زبان کی یکساں استعداد پیدا نہیں کر سکتے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو طلبہ زبان میں کمزور تھے، وہ بھی تراجم کے باعث کم از کم علم و فن کو بنیادی طور پر سمجھنے میں کامیاب ہو گئے۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
اور ہم نے اپنی فن کی کتب سے علوم عالیہ پڑھنے ہیں، جو کہ علم ہیں، فن نہیں ہیں.
فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ
تقریباً تمام کتابیں قابلِ ترجمہ ہیں۔ البتہ جہاں صرف ترجمہ کافی نہ ہو ، وہاں شرح کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
ہمارے مدارس کی تعلیمی صورتحال یہ ہے کہ ہم پڑھتے عربی ہیں، سوچتے پنجابی ہیں اور لکھتے اردو ہیں ، پھر نتیجہ نکلتا ہے
“کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں،
کھڑکیوں کے کھڑکنے سے کھڑکتا ہے کھڑک سنگ”
فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ
آپ اپنی معلومات کی روشنی میں درست فرما رہے ہیں۔ جبکہ ہمارا جو مشاہدہ ہے ہم نے اس کو بیان کردیا ہے ۔ بقول محترم سیال کوٹی صاحب ولكل وجهة. بارك الله فينا وفيكم..
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
ایک نصاب ہوتا ہے اور دوسرا طریقہ تدریس جیسے نصاب بدلتا ہے طریقہ تدریس بھی بدلتا ہے اگر نصاب پرانا رکھنا ہے تو وہ عربی میں ہے تو طریقہ بھی وہی رہنا چاہیے اور اگر نصاب نیا رکھنا ہے اور اس نئے کا نام پرانے عربی نصاب کے تراجم ہی ہیں جو کہ اپنے مواد کے اعتبار سے یقینا کاپی پیسٹ سے بڑھ کر کچھ نہیں تو طریقہ تدریس بھی وہ نہیں رہے گا جو سابقہ علما کا تھا اس سے یہ تو ظاہر ہے کہ نیا طالب علم کاپی پیسٹ ہو گا عبارت میں گھسنے کی صلاحیت اور لفظ کے ساتھ مضبوط جوڑ رکھنا اس کے بس کا کام نہیں ہو گا ۔۔۔ پھر یہ کام تو یونیورسٹیز میں بدرجہ اتم ہو رہا ہے تو ان کے طلاب کی استعداد مدارس کے مقابل میں دیکھ لیجیے اس لئے کچھ کتابوں میں تو معیاری تراجم بچوں کو لگائے جا سکتے ہیں لیکن غالب حصہ عربی کی کتب ہوں تو بہتر ہے الا کہ استاد کے اندر صلاحیت نہ ہو تو مضطر کے لئے ظاہر ہے جواز مع الکراہہ ہے
فضیلۃ العالم محمد زبیر حفظہ اللہ
اور ہم تو جن طلبہ کو پڑھا رہے ہیں ۔ وہاں کھڑکیاں ہی کھڑک رہی ہیں۔ ہم نے پڑھا تھا کہ عربی میں فاعل مرفوع ہوتا ہے۔ آج کل ایک طالب علم منصوب پڑھ رہا ہوتا ہے اور دوسرا مجرور پڑھ رہا ہوتا ہے اور تیسرا مرفوع پڑھ دیتا ہے کہ کوئی تو درست ہوگا۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
ایک نئے استاد مدرسے میں پڑھانے لگے میں نے ان کو کال کی کہ آپ کونسے اسباق پڑھا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ فلاں فلاں سبق پڑھا رہا ہوں میں نے پوچھا اصولِ تفسیر کی کونسی کتاب آپ کے حصے میں آئی ہے تو انہوں نے کہا مباحث فی علومِ القرآن ان سے پوچھا کہ اس میں کوئی پریشانی دقت ہو تو بتائیے گا آپ کی رہنمائی کروں گا ان شاءاللہ۔ اور اگر ہو سکا تو کسی دوسرے مدرسے کے استاد کی ریکارڈنگ میں آپ کو بھیج دوں گا تاکہ آپ ایک سبق اچھی طرح سننے کے بعد سمجھ کر آگے پڑھا سکیں ، وہ کہنے لگے کہ یہ تو کوئی مشکل کتاب نہیں ہے بہت آسان کتاب ہے میں پریشان ہوا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں میں نے ان سے پوچھا یہ کس زبان میں ہے کہنے لگے اردو میں ہے میں نے کہا یہ کتاب تو عربی میں ہے انہوں نے کہا کہ نہیں یہ اردو میں ہے، میں سمجھ گیا کہ یہ مدرسے میں انہوں نے پڑھی اردو میں ہوگی تو اب پڑھا بھی اردو ہی رہے ہیں یہ تو ہمارا حال ہے جس کو یہ نہیں پتہ کہ یہ اصل کتاب کس زبان میں ہے اور وفاق المدارس السلفیہ کے نصاب میں کونسی کتاب شامل ہے تو مدرسوں میں پڑھانے والوں کا جب یہ حال ہوگا ،استاد ایسے پڑھائیں گے پھر نئے استاد بنیں گے وہ بھی ایسے ہی پڑھائیں گے۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے
فضیلۃ الباحث مرتضی ساجد حفظہ اللہ
یاضیعة العلم و الادب. فليبك على الاسلام من كان باكيا.
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ