سوال (2387)
اگر کوئی جنابت کا غسل کرنے کے لیے وضو کرنا بھول جائے، عام طریقے سے پانی اپنے اوپر ڈال دے تو کیا پاکی حاصل ہوجائے گی؟
جواب
جوسنت طریقہ بتایا گیا ہے ، اس میں پہلے وضوء ہے، بعد میں غسل ہے، یہ اولی و افضل ہے ، اس کو اختیار کرنا چاہیے ، ہمارے پاک و ہند میں اس پر ہی فتویٰ دیا جاتا ہے، البتہ عرب کے ہاں اگر کسی نے نیت کی بنا پر ایسے غسل کرلیا ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو اس کے غسل کو تسلیم کرتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
واضح رہے کہ غسل کے شروع میں وضو کرنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، لیکن اگر کوئی شخص غسل کے شروع میں وضو کرنا بھول جائے، تب بھی غسل میں تمام بدن پر پانی بہانے سے غسل ہوجائے گا ، البتہ غسل کے شروع میں وضو نہ کرنا سنت کے خلاف ہے۔
غسل جنابت كے دو طريقے ہيں:
(1) : كفایت كرنے والا طريقہ
(2) : مكمل طريقہ
(1) : كفایت كرنے والا طريقہ:
كفایت كرنے والا طريقہ غسل يہ ہے كہ: كلى كر كے اور ناک ميں پانى ڈال كر سارے بدن پر پانى ڈال ليا جائے، چاہے ايک بار، اور اگر گہرے پانى ميں غوطہ لگائے تو بھى ٹھيك ہے.
(2) : مكمل طريقہ:
غسل كا مكمل طريقہ يہ ہے كہ اپنى شرمگاہ اور جہاں جہاں نجاست لگى ہو اسے دھوئے، اور پھر مكمل وضوء كرنے كے بعد اپنے سر پر تين چلو پانى بہائے حتى كہ بالوں تك سر تر ہو جائے، اور پھر اپنے جسم كى دائيں جانب اور پھر بائيں جانب دھوئے.
فضیلۃ العالم مرتضیٰ ساجد حفظہ اللہ
غسل جنابت سے پہلے وضو کرنا مسنون عمل ہے اور سنت سے وجوب ثابت نہیں ہوتا تو جو عمل واجب نہیں اس کے ترک سے گناہ اور نقصان لازم نہیں آتا الا کہ وہ اس سنت کو حقیر اور معمولی سمجھ کر ترک کرے تو تب گنہگار اور فاسق ہے ۔ یہاں تو عمدا نہیں کیا گیا بلکہ بھول کر ایسا ہوا ہے تو بلاشبہ ایسے شخص کا غسل درست ہے۔
اور یاد رہے جس عمل کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پابندی و تسلسل سے کیا ہو ہمیں بھی محبت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم اور اتباع سنت کے جزبہ صادقہ سے اسے سر انجام دینا چاہیے ہے۔
البتہ نماز پڑھنے کا وقت ہو تو ایسے شخص کو وضو کا اہتمام کرنا پڑے گا یہ اس لیئے وضاحت کر دی کہ میرے علم میں بعض ایسے لوگ ہیں جو غسل کو ہی کافی سمجھتے ہیں اور وضو کا اہتمام نہیں کرتے ہیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ