سوال (2539)

کیا حلال جانور کے کپورے حلال ہیں اور اس کی دلیل کیا ہے؟

جواب

چار رگیں کٹ کر خون بہہ جانا لازمی ہے، اس کے بعد حلال جانور کا سب کچھ حلال ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ محدثین نے ہر روایت بطور حجت ودلیل کے نقل نہیں کی ہے بلکہ بطور معرفت وپہچان کے اور دیانت علمی کے نقل کی ہے تا کہ صحیح اور غیر صحیح میں فرق کیا جا سکے اور ائمہ محدثین کا یہ کام امت پر ایسا احسان ہے جسے ہم سب مل کر بھی ادا نہیں کر سکتے اگر ائمہ محدثین کذاب،وضاع،غیر عادل،مجاھیل ومتروک الحدیث قسم کے لوگوں کی روایات جمع نہ کرتے اور الگ سے ان کے حالات قلم بند نہ کرتے تو آج ہم کس بنیاد پر یہ فرق اور پہچان کر پاتے کہ کونسی حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ہے اور کونسی حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نہیں ہے اور اسے بیان کرنے والے ناقابل اعتبار،غیر ثقہ،دین وایمان سے عاری،کذاب ووضاع قسم کے لوگ ہیں یا اس سند میں یہ اور یہ علتیں ہیں جی ہاں ہم ائمہ محدثین کے دیے گیے اصول وقواعد علم الإسناد،علم الرجال،علم العلل،علم الجرح والتعدیل کے ذریعے ہی یہ فرق ثابت اور معلوم کر سکتے ہیں اور بتا سکتے کہ فلاں حدیث حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ہے اور فلاں روایت حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ہرگز نہیں ہے اور اس کی سند ومتن میں یہ خرابی وعلت ہے۔
تو آپ کی ذکر کردہ یہ روایت معلول وضعیف ہے
تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

أخبرنا ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﻷﻭﺯاﻋﻲ، ﻋﻦ ﻭاﺻﻞ، ﻋﻦ ﻣﺠﺎﻫﺪ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻜﺮﻩ ﻣﻦ اﻟﺸﺎﺓ ﺳﺒﻌﺎ: اﻟﺪﻡ، ﻭاﻟﺤﻴﺎ، ﻭاﻷﻧﺜﻴﻴﻦ، ﻭاﻟﻐﺪﺓ، ﻭاﻟﺬﻛﺮ، ﻭاﻟﻤﺜﺎﻧﺔ، ﻭاﻟﻤﺮاﺭﺓ، ﻭﻛﺎﻥ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﻣﻦ اﻟﺸﺎﺓ ﻣﻘﺪﻣﻬﺎ

[مصنف عبد الرزاق : 8771 سندہ مرسل ضعیف]

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﻮﻧﺲ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ، ﻋﻦ اﻷﻭﺯاﻋﻲ، ﻋﻦ ﻭاﺻﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺟﻤﻴﻞ، ﻋﻦ ﻣﺠﺎﻫﺪ، ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺮﻩ ﻣﻦ اﻟﺸﺎﺓ ﺳﺒﻌﺎ: اﻟﻤﺜﺎﻧﺔ ﻭاﻟﻤﺮاﺭﺓ ﻭاﻟﻐﺪﺓ ﻭاﻟﺬﻛﺮ ﻭاﻟﺤﻴﺎء ﻭاﻷﻧﺜﻴﻴﻦ

[المراسیل لأبی داود: 465 ﻓﻮاﺋﺪ ﻣﻨﺘﻘﺎﺓ ﻣﻦ اﻟﺠﺰء اﻷﻭﻝ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﺑﻲ ﺷﻌﻴﺐ اﻟﺤﺮاﻧﻲ:38]
سندہ مرسل ضعیف
حافظ ابن عساکر نے کہا:

ﻭاﻟﻠﻔﻆ ﻻﺑﻦ اﻟﺴﻤﺮﻗﻨﺪﻱ ﻭﺻﻞ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻏﺮﻳﺐ ﻭﻗﺪ ﺭﻭاﻩ اﻷﻭﺯاﻋﻲ ﻋﻦ ﻭاﺻﻞ ﻓﺄﺭﺳﻠﻪ

[تاریخ دمشق : 62/ 373]
واصل بن أبی جمیل کے بارے امام بخاری نے کہا:
ﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻣﺮﺳﻠﺔ
[التاريخ الكبير للبخارى : 8/ 173]
امام خطیب بغدادی نے کہا:

ﺭﻭﻯ ﻋﻨﻪ ﺃﺑﻮ ﻋﻤﺮﻭ اﻷﻭﺯاﻋﻲ ﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻣﺮاﺳﻴﻞ ﻻ ﻳﻮﺟﺪ ﻓﻴﻬﺎ ﻣﺴﻨﺪ

[تاريخ دمشق:62/ 375]
جی ہاں یہ روایت مرسل ہی ہے اس کا موصولا ہونا ثابت نہیں ہے اور جس نے اسے موصولا بیان ہے وہ خطاء پر ہے۔
واصل پر کلام بھی ہے امام یحیی بن معین نے کہا:
لا شئ الجرح والتعديل :9/ 30 سنده صحيح
تاریخ دمشق میں اس کی توثیق بھی ہے امام ابن معین سے مگر اس کی سند کے بعض روات کا ترجمہ نہیں ملا جیسے ابو الحسن یحیی بن الحسن بن جعفر المصیصی

ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﻔﺮﺝ ﻏﻴﺚ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﻄﺎﻫﺮ ﻣﺸﺮﻑ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ اﻟﺘﻤﺎﺭ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ اﻟﻤﺼﻴﺼﻲ ﺃﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺃﻧﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ( إن كان هو ابن أحمد علان المصري فهو ثقة وإن كان دون ذلك فلم أجده ) اﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ اﻟﺒﺰاﺭ ﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﺮﻳﻢ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ ﻳﻘﻮﻝ ﻭاﺻﻞ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺟﻤﻴﻞ ﻣﺴﺘﻘﻴﻢ اﻟﺤﺪﻳﺚ

تاريخ دمشق :62/ 375]
امام دارقطنی نے کہا:
ﻭﻭاﺻﻞ ﻫﺬا ﺿﻌﻴﻒ
[سنن دارقطنی :4/ 50 ، 3078]
ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻫﺎﻧﺊ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻳﻘﻮﻝ: ﻭاﺻﻞ ﻣﻮﻟﻰ اﺑﻦ ﻋﻴﻴﻨﺔ ﻣﺠﻬﻮﻝ، ﻣﺎ ﺣﺪﺙ ﻋﻨﻪ ﻏﻴﺮ اﻷﻭﺯاﻋﻲ
[معجم ابن الأعرابي : 1083]
لیکن یہ کوئی دوسرا راوی معلوم ہوتا ہے جبکہ تھذیب التھذیب،موسوعہ أقوال الإمام أحمد بن حنبل:(3417) میں اسی کے ترجمہ میں اسے نقل کیا گیا ہے۔البتہ امام أحمد بن حنبل کا غالب رجحان اس کے ناقابل حجت ہونے کی طرف ہے اور اس کی روایت کو منکر کہا ہے
دیکھیے مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني: 1875
ابن شاہین،حافظ ذہبی کا میلان بھی اس کے ضعیف ہونے کی طرف ہے اور یہی راجح ہے
مزید کلام دیکھیے تاریخ دمشق ترجمہ واصل بن أبی جمیل میں، اور یہ روایت موصولا جس طریق سے مروی ہے وہ سخت ضعیف ہے
امام ابن عدی نے کہا:

ﻭﺑﺈﺳﻨﺎﺩﻩ؛ ﻋﻦ ﻭاﺻﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺟﻤﻴﻞ ﻋﻦ ﻣﺠﺎﻫﺪ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻳﻜﺮﻩ ﺃﻛﻞ ﺳﺒﻊ ﻣﻦ اﻟﺸﺎﺓ اﻟﻤﺜﺎﻧﺔ ﻭاﻟﻤﺮاﺭﺓ ﻭاﻟﻐﺪﺓ ﻭاﻷﻧﺜﻴﻴﻦ ﻭاﻟﺬﻛﺮ ﻭاﻟﺤﻴﺎ ﻭاﻟﺪﻡ ﻭﻛﺎﻥ ﺃﺣﺐ اﻟﺸﺎﺓ ﺇﻟﻴﻪ ﺫﻧﺒﻬﺎ

الكامل لابن عدي :6/ 21 ترجمہ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﻭﺟﻴﻪ اﻟﻮﺟﻴﻬﻲ
اس سند میں یہ عمر بن موسی راوی سخت ضعیف ہے تفصیل کتب تراجم میں دیکھیے
امام ابن عدی نے کہا:
ﻭﻟﻌﻤﺮ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﻏﻴﺮ ﻣﺎ ﺫﻛﺮﺕ ﻣﻦ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻛﺜﻴﺮ ﻭﻛﻞ ﻣﺎ ﺃﻣﻠﻴﺖ ﻻ ﻳﺘﺎﺑﻌﻪ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﻣﺎ ﻟﻢ ﺃﺫﻛﺮﻩ ﻛﺬﻟﻚ، ﻭﻫﻮ ﺑﻴﻦ اﻷﻣﺮ ﻓﻲ اﻟﻀﻌﻔﺎء، ﻭﻫﻮ ﻓﻲ ﻋﺪاﺩ ﻣﻦ ﻳﻀﻊ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻣﺘﻨﺎ ﻭﺇﺳﻨﺎﺩا
[الکامل لابن عدی :6/ 23]
ابن القطان الفاسی نقل کرتے ہیں:

ﻭﺫﻛﺮ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﺃﺑﻲ ﺃﺣﻤﺪ( هو ابن عدي)، ﻣﻦ ﺭﻭاﻳﺔ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﻭﺟﻴﻪ، ﻋﻦ ﻭاﺻﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺟﻤﻴﻞ، ﻋﻦ ﻣﺠﺎﻫﺪ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ” ﻛﺎﻥ ﻳﻜﺮﻩ ﺃﻛﻞ ﺳﺒﻊ ﻣﻦ اﻟﺸﺎﺓ: اﻟﻤﺜﺎﻧﺔ ﻭاﻟﻤﺮاﺭﺓ، ﻭاﻟﻐﺪﺓ ﻭاﻷﻧﺜﻴﻴﻦ، ﻭاﻟﺤﻴﺎء، ﻭاﻟﺪﻡ

اور کہا:
ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﻣﺘﺮﻭﻙ.

ﻭﻫﻮ ﻛﻤﺎ ﻗﺎﻝ، ﻭﻟﻢ ﻳﻨﺒﻪ ﻋﻠﻰ ﻭاﺻﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺟﻤﻴﻞ، ﻭﻟﻜﻨﻪ ﺃﺑﺮﺯﻩ، ﻭﻫﻮ ﻟﻢ ﺗﺜﺒﺖ ﻟﻪ ﻋﺪاﻟﺔ، ﻭﻗﺪ ﻗﺎﻝ ﻓﻴﻪ اﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ: ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲء.
ﻭﺇﻟﻰ ﺫﻟﻚ ﻓﺈﻥ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺇﻧﻤﺎ ﻳﺮﻭﻳﻪ ﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﻓﻬﺮ ﺑﻦ ﺑﺸﺮ اﻟﺪاﻣﺎﻧﻲ، ﻭﻫﻮ ﻣﺠﻬﻮﻝ اﻟﺤﺎﻝ، ﻭﻻ ﺃﻋﻠﻢ ﻟﻪ ﺫﻛﺮا ﻓﻲ ﺷﻲء ﻣﻦ ﻣﺼﻨﻔﺎﺕ اﻟﺮﺟﺎﻝ، ﻣﻈﺎﻥ ﻛﺮﻩ ﻭﺫﻛﺮ ﺃﻣﺜﺎﻟﻪ، ﻏﻴﺮ ﺃﻥ اﺑﻦ اﻟﻔﺮﺿﻲ ﺫﻛﺮﻩ ﻟﻀﺒﻂ اﺳﻤﻪ، ﻓﺬﻛﺮﻩ ﺑﺎﻟﺮاء ﻭاﻟﻔﺎء اﻟﻤﻜﺴﻮﺭﺓ ﻭﻟﻢ ﻳﺰﺩ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻗﺎﻝ: ﺭﻭﻯ ﻋﻨﻪ ﺃﻳﻮﺏ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﻮﺯاﻥ، ﺃﺧﺬا ﻣﻦ ﺇﺳﻨﺎﺩ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻓﻬﻮ ﻳﺮﻭﻳﻪ ﻋﻨﻪ، ﻓﺎﻋﻠﻢ ﺫﻟﻚ.

یہ سب ابن القطان الفاسی نے نقل کر رکھا ہے
بيان الوهم والإيهام :3/ 242 ،243
حافظ عراقی نے کہا:
ﻭاﻟﺪﻡ.
ﺃﺧﺮﺟﻪ اﺑﻦ ﻋﺪﻱ ﻭﻣﻦ ﻃﺮﻳﻘﻪ اﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺑﺈﺳﻨﺎﺩ ﺿﻌﻴﻒ ﻭﺭﻭاﻩ اﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﻣﻦ ﺭﻭاﻳﺔ ﻣﺠﺎﻫﺪ ﻣﺮﺳﻼ.
آگے ہے:

ﻗﻠﺖ: ﺭﻭاﻩ اﺑﻦ ﻋﺪﻱ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﻓﻬﺪ ﺑﻦ ﻧﺴﺮ ﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﻭﺟﻴﻪ ﻋﻦ ﻣﺠﺎﻫﺪ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺛﻢ ﻗﺎﻝ اﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﺑﻌﺪ ﺃﻥ ﺃﺧﺮﺟﻪ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻘﻪ ﻭﻋﻤﺮ ﺿﻌﻴﻒ ﻭﻭﺻﻠﻪ ﻻ ﻳﺼﺢ اﻩـ ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ اﻟﻘﻄﺎﻥ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﻣﺘﺮﻭﻙ ﻭﻗﺪ ﺟﺰﻡ ﻋﺒﺪ اﻟﺤﻖ ﺑﺘﻀﻌﻴﻔﻪ ﻭﺗﺒﻌﻪ اﻟﻌﺮاﻗﻲ ﻭﺃﻣﺎ ﻣﺮﺳﻞ ﻣﺠﺎﻫﺪ ﻓﺄﺧﺮﺟﻪ اﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﻋﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﻋﻦ اﻷﻭﺯاﻋﻲ ﻋﻦ ﻭاﺻﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺟﻤﻴﻠﺔ ﻋﻨﻪ ﻭﺭﻭاﻩ ﺃﺑﻮ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻋﻦ ﻭاﺻﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺟﻤﻴﻠﺔ ﻭﺭﻭاﻩ اﻟﻄﺒﺮاﻧﻲ ﻓﻲ اﻷﻭﺳﻂ (9480 ،قلت أي الطيبي :سنده ضعيف جدا لأجل يحيى الحماني ) ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻭﻓﻴﻪ ﻳﺤﻴﻰ اﻟﺤﻤﺎﻧﻲ ﻭﻫﻮ ﺿﻌﻴﻒ

[تخريج أحاديث الإحياء:3/ 1434]
امام بیھقی کا کلام وغیرہ دیکھیے السنن الکبری :(19700 ،19701) اور دیکھیے ذخيرة الحفاظ :(1705)
تو یہ روایت پایہ ثبوت کو نہیں پنہچتی ہے اور قرآن و حدیث میں کوئی ایسی دلیل و تصریح موجود نہیں ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حلال جانور کے کپورے وغیرہ حرام اور مکروہ ہیں عام اصول و قاعدہ یہی ہے کہ حلال جانور کی ہر چیز حلال ہے، الا کہ اس کی کسی عضو کے حرام ہونے پر کوئی صحیح و صریح دلیل موجود ہو، ہاں ذبح کے بعد بہہ جانے والا خون حرام ہے اور گوبر وغیرہ چیزیں گندگی سے ہیں تو ہم اپنی پسند، ناپسند کے سبب یہ اختیار نہیں رکھتے کہ الله تعالى کی حلال کردہ چیزوں کو مکروہ تحریمی یعنی حرام کہتے پھیریں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ