سوال (5647)
کچھ لوگ عید میلاد کو ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ امام بخاری بھی بدعتی تھے کیونکہ وہ تعظیم حدیث میں صحیح بخاری لکھتے ہوئے ہر ہر حدیث پر غسل کرتے تھے اور رکعتین ادا کرتے تھے اس عمل کا ثبوت نہ صحابہ سے ملا نا قرآن وحدیث میں؟(ایک سائلہ،مجلس علم وتحقیق میں طیبی کا جواب)
جواب
پہلی بات کسی شخصیت کا ذاتی عمل ہمارے لئے حجت ونمونہ نہیں ہے۔
ہم شخصیت پرست نہیں ہیں نہ ہی یہ ہمارا دین اور مسلک ہے۔
دوسری بات امام بخاری کا یہ عمل استخارہ کی حدیث مبارک کے عین موافق تھا یعنی آپ کی یہ دو رکعت استخارہ کے طور پر تھیں اور کسی بھی جائز و مستحسن عمل سے پہلے استخارہ کرنا رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم مبارک سے ثابت ہے۔
حدیث مبارک کے الفاظ ملاحظہ کریں:
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الأُمُورِ كُلِّهَا، كَالسُّورَةِ مِنَ القُرْآنِ: إِذَا هَمَّ بِالأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ،
سیدنا جابر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہمیں تمام معاملات میں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے، قرآن کی سورت کی طرح ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) جب تم میں سے کوئی شخص کسی ( اچھے اور جائز ) کام کا ارادہ کرے ( یعنی ابھی پختہ عزم نہ ہوا ہو ) تو دورکعت ادا کرے۔۔۔اگے دعا استخارہ کا ذکر ہے۔ دیکھیے صحیح البخاری:(6382)بَابُ الدُّعَاءِ عِنْدَ الِاسْتِخَارَةِ،
امام خرائطی اس حدیث پر یوں عنوان قائم کرتے ہیں۔
ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﻟﻠﻤﺮء ﻣﻦ اﺳﺘﺨﺎﺭﺓ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﻓﻲ اﻷﻣﺮ ﻳﻘﺼﺪ ﻟﻪ،
مكارم الأخلاق للخرائطي: ص:298 قبل حدیث:(915)
امام ابن حبان نے ایک روایت پر یوں عنوان قائم کیا ہے:
ﺫﻛﺮ اﻷﻣﺮ بالاﺳﺘﺨﺎﺭﺓ ﺇﺫا ﺃﺭاﺩ اﻟﻤﺮء ﺃﻣﺮا ﻗﺒﻞ اﻟﺪﺧﻮﻝ ﻋﻠﻴﻪ،صحيح ابن حبان:(885
اور سیدنا جابر رضی الله عنہ سے مروی حدیث مبارک پر یوں عنوان قائم کیا ہے۔
ﺫﻛﺮ اﻟﺒﻴﺎﻥ ﺑﺄﻥ اﻷﻣﺮ ﺑﺪﻋﺎء الاﺳﺘﺨﺎﺭﺓ ﻟﻤﻦ ﺃﺭاﺩ ﺃﻣﺮا ﺇﻧﻤﺎ ﺃﻣﺮ ﺑﺬﻟﻚ ﺑﻌﺪ ﺭﻛﻮﻉ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﻏﻴﺮ اﻟﻔﺮﻳﻀﺔ، صحيح ابن حبان:(887)
تو جب کسی خیر اور مبارک کام کو کرنے کا کا کوئی ارادہ رکھتا ہے تو اسے شروع کرنے اور اس میں داخل ہونے سے پہلے استخارے کا اہتمام کرنا رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حدیث وتعلیم کے مطابق ہے اسی لئے امام بخاری رحمة الله عليه نے صحیح البخاری کو تصنیف کرنے سے پہلے استخارہ فرمایا:
امام بخاری رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
ﻣﺎ ﻭﺿﻌﺖ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﺼﺤﻴﺢ ﺣﺪﻳﺜﺎ ﺇﻻ اﻏﺘﺴﻠﺖ ﻗﺒﻞ ﺫﻟﻚ ﻭﺻﻠﻴﺖ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ،
تاريخ بغداد:2/ 322(374)واللفظ له، طبقات الحنابلة:1/ 374،تاريخ دمشق: 52/ 71،72سنده صحيح
(اس أثر پر میری مفصل تحقیق و تخریج موجود ہے جسے کچھ سال پہلے میں نے لکھا تھا مگر آج اس کی عدم استحظار کے سبب صحیح توضیح بیان نہیں کر سکا )
اس أثر کو نقل کرنے کے بعد حافظ ذہبی رحمة الله عليه لکھتے ہیں:
ﻳﻌﻨﻲ ﻣﺎ ﺟﻠﺴﺖ ﻷﺿﻊ ﻓﻲ ﺗﺼﻨﻴﻔﻪ ﺷﻴﺌﺎ ﺇﻻ ﻭﻓﻌﻠﺖ ﺫﻟﻚ، ﻻ ﺇﻧﻪ ﻳﻔﻌﻞ ﺫﻟﻚ ﻟﻜﻞ ﺣﺪﻳﺚ.
تاريخ الإسلام للذهبي:19/ 248
مراد یہ ہے کہ امام بخاری ہر حدیث پر دو رکعت نہیں پڑھتے تھے بلکہ کتاب کی تصنیف سے پہلے آپ نے غسل و وضو کے بعد دو رکعت ادا کی تھیں تا کہ رب العالمین کی طرف سے خاص نصرت وکرم نصیب ہو جائے سو ایسا ہی ہوا۔
اس لئے اس أثر کی بنیاد پر اہل بدعت کا واویلا اور مکر وفریب دم توڑ گیا ہے۔
مزید کچھ باتیں اہل بدعت کا اصلی چہرہ دیکھنے کے لئے تحریر کیے دیتے ہیں۔
اہل بدعت جو کچھ یوم ولادت پر کرتے ہیں یہ کچھ کسی بھی پہلی شریعت میں موجود نہیں تھا۔
مثلا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ہاں یکے بعد دیگرے دو بیٹے پیدا ہوئے سیدنا اسماعیل علیہ السلام، سیدنا اسحاق علیہ السلام مگر انہوں نے اپنے بیٹوں کا یوم ولادت منایا ہو اور ہر سال منایا ہو؟
سیدنا اسحاق علیہ السلام کے ہاں سیدنا یعقوب علیہ السلام پیدا ہوا مگر انہوں نے ان کا یوم ولادت نہیں منایا
سیدنا یعقوب علیہ السلام کے ہاں سیدنا یوسف علیہ السلام پیدا ہوئے مگر انہوں نے کبھی ان کا یوم ولادت نہیں منایا۔ سیدنا زکریا علیہ السلام کے ہاں سیدنا یحیی علیہ وسلم پیدا ہوئے مگر انہوں نے اپنے بیٹے کا یوم ولادت کبھی نہیں منایا۔ آخر کیوں؟ یاد رکھیں کسی بھی نبی اور رسول پر نازل ہونے والی شریعت ودین میں یوم ولادت منانے کا تصور وحکم موجود نہیں تھا۔
ایسے ہی دین اسلام میں بھی یوم ولادت منانے کا تصور وحکم موجود نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی والدہ،داد وغیرہ نے آپ کا کبھی یوم ولادت نہیں منایا
نہ ہی خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کبھی اپنا یوم ولادت منایا۔
نہ ہی کبھی صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا یوم میلاد منایا حالانکہ صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے زیادہ خالص اور سچی محبت وعقیدت کوئی کر ہی نہیں سکتا ہے۔
اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مہینہ ولادت، تاریخ ولادت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
کسی نے بارہ ربیع الاول کہا، کسی نے آٹھ ربیع الاول کہا،کسی نے نو ربیع الاول کہا۔
شیخ عبد القادر جیلانی نے دس محرم الحرام کہا۔
بریلوییت کے بانی احمد رضا خان بریلوی نے آٹھ ربیع الاول کا دن یوم ولادت کہا(فتاوی رضویہ)
اور ایک جگہ بارہ ربیع الاول یوم ولادت اور بارہ ربیع الاول کو ہی یوم وفات کہا(ملفوظات)
اور سوموار کے دن میں کسی کو اختلاف نہیں ہے مگر مہینہ ولادت ،تاریخ ولادت میں اچھا خاصا اختلاف ہے۔
دیکھیں عید الفطر یکم شوال کو عہد نبویہ سے آج تک لوگوں میں ادا کی جاتی اور منائی جاتی ہے۔
عید الاضحی دس ذوالحج کو ادا کی جاتی اور منائی جاتی ہے۔
سب اس پر متفق ہیں اور اس کا ذکر صحیح احادیث میں موجود ہے۔
مگر غور کریں کہ عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم کا ذکر اور طے شدہ تاریخ ومہینہ کسی بھی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔
صحابہ کرام، سلف صالحین ائمہ أربعہ اس سے بے خبر تھے کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا آخر کیوں؟
کیا محبت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا یہی تقاضا قرآن وحدیث میں موجود ہے؟
کیا کسی نبی اور غیر نبی کے یوم ولادت کو ہر سال منانے کا نظریہ قرآن وحدیث میں کہیں بیان ہوا ہے؟
اور اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
فرض؟ سنت؟ مستحب؟ نہ منانے کا گناہ؟
کیا یہ تفصیل کوئی دلائل شرعیہ کی روشنی میں پیش کر سکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ رب العالمین نے ان اہل بدعت سے عقل وشعور ،فھم دین وشریعت چھین لیا ہوا ہے یہیں سے ہمیں بدعت کی نحوست ونقصان کو سمجھ لینا چاہیے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی بدعتی حدیثاور علم حدیث کا امام نہیں ہو گزرا ہے۔هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
اس اعتراض کا بہترین جواب شیخ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے دیا ہے۔
جسکا خلاصہ یہ ہے کہ: امام بخاری رحمہ اللہ نے جہاں پر غسل کرنے کا ذکر کیا وہیں یہ بھی بتلایا کہ میں استخارہ کرتا تھا اور استخارہ تو صحیح حدیث سے ثابت ہے لہذا یہ اعتراض ہی بلکل بے بنیاد ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ پر بدعت کا فتوی لگاؤ۔
واللہ المستعان
https://www.facebook.com/share/v/16z88pY8pm/
شیخ کفایت اللہ سنابلی صاحب کی مکمل ویڈیو کا لنک جس میں امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے کئے گئے اعتراض کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔
فضیلۃ الباحث محمد فرقان حفظہ اللہ
شكرالكم وبارك فيكم
جس روایت میں واضح استخارہ کا ذکر ہے اس کی سند کی صحت پر ابھی تک فائنل نہیں ہو سکا۔ البتہ دوسری روایت میں مطلقا دو رکعت کا ذکر ہے جس کی توجیح استخارہ سے کر سکتے ہیں۔
اور اس دوسری روایت پر میری مفصل تحقیق موجود ہے۔
اور اسی دوسری روایت پر حافظ ذہبی نے توضیح کی ہے مراد صرف کتاب تصنیف کرتے وقت دو رکعت پڑھنا ہے ناں کہ ہر حدیث پر دو رکعت پڑھنا۔
بہرحال یہ چیز استحظار نہ ہونے کے سبب رہ گئ جسے فرصت میں اس جواب میں ایڈ کروں گا۔ ان شاءالله
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ